سعودی عرب کے شہزادہ ترکی الفیصل نے متنبہ کی ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے سے خطے کے دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ہونے کے بعد سعودی عرب بھی یہ حق مانگے گا اور دیگر ممالک بھی ایسا چاہیں گے۔
سعودی عرب کی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے کہا ’میں ہمیشہ سے یہ کہتا آ رہا ہوں کہ ان مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے سعودی عرب بھی وہ مانگے گا۔ اگر ایران کو یورینیئم کی افژودگی کی اجازت مل جاتی ہے چاہے کسی بھی سطح کی ہو، صرف سعودی عرب ہی یہی اجازت اپنے لیے نہیں مانگے گا۔‘
’بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پوری دنیا یہی چاہے گی۔ ہمارا چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان مذاکرات پر یہ تحفظات ہیں۔‘
واضح رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر جامع مذاکرات کے لیے مارچ میں ایک معاہدہ ہونا ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس کے بدلے میں ایران پر پابندیوں کو نرم کیا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس ماہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے بعد خلیجی ممالک کے دورے پر گئے تھے۔ اس دورے پر ان کو خلیجی رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار سے لیس ایران کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
ترکی الفیصل نے کہا ’ایران عرب دنیا کے مختلف حصوں میں ویسے ہی مسئلے پیدا کر رہا ہے چاہے وہ یمن ہو، شام، عراق، فلسھین یا بحرین ہو۔ اس لیے وقیع پیمانے پر تباہی کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری نہ کرنے کے خوف کے ختم ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں جو ایران سے مسائل ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔‘
ایران کا یہ کردار تکریت میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی نے شیعہ ملیشیا کی رہنمائی کی۔
شہزادہ ترکی الفیصل کہتے ہیں ’ایسا لگ رہا ہے کہ ایران عراق پر اپنے قبضے کو وسیع کر رہا ہے جو ہمیں قبول نہیں۔‘
واضح رہے کہ سعودی عرب امریکہ پر زور ڈالتا رہا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کرے جس پر امریکہ تیار نہیں ہے۔
اب امریکہ اور سعودی عرب میں طے پایا ہے کہ شامی باغیوں کو تربیت دی جائے۔ لیکن امریکہ کا اس کے پیچھے مقصد بشار الاسد کے خلاف لڑنا نہیں بلکہ شامی باغیوں کا دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنا ہے۔
اس حوالے شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا ہے ’میں سمجھتا ہوں کہ دولت اسلامیہ یا جس کو میں فحاش کہنا پسند کرتا ہوں سے لڑنا اسد سے لڑنا ہے۔ بشار الاسد نے جو اپنے لوگوں کے ساتھ رویہ رکھا اسی وجہ سے فحاش کو موقع ملا ۔۔۔ اسی لیے دشمن فحاش اور نشار الاسد دونوں ہی ہیں۔‘