وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے فوجی آپریشن کے باعث کے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل آج سے شروع ہو رہا ہے۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز فرمان خلجی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پیر یعنی آج سے جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کا آغاز ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغا اور سرواکئی کے پچیس ہزار خاندان اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو 10 ہزار روپے فی خاندان ٹرانسپورٹ کے زمرے میں دیے جا رہے ہیں اور 25 ہزار روپے اے ٹی ایم کے ذریعے دیے جا رہے ہیں۔
’ہم نے اس سارے عمل کو سٹریم لائن کر دیا ہے تاکہ ان افراد کو رقم کے لیے لوگوں سے واسطہ کم سے کم پڑے۔‘
جنوبی وزیرستان میں 2009 میں فوج آپریشن راہ نجات شروع کیا گیا تھا جس میں سات لاکھ افراد نقلِ مکانی کر کے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر علاقوں کو چلے گئے تھے۔ ان متاثرین کے لیے کوئی کیمپ قائم نہیں کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی واپسی کے بعد بیس مارچ یعنی جمعہ سے خیبر ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل شروع ہو گا۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کے علاقے اکا خیل کے 20 ہزار خاندان اپنے گھر لوٹیں گے۔
فاٹا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ایف ڈی ایم اے کے مطابق باڑہ سے ایک لاکھ 71 ہزار افراد گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں یا رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
شمالی وزیرستان کے بارے پناہ گزینوں کے حوالے سے فرمان خلجی کا کہنا تھا کہ ان کی واپسی کا عمل 31 مارچ سے شروع ہو گا۔
’شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے 18 ہزار خاندان اس ماہ کی اکتیس تاریخ سے اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو جائیں گے۔‘
فوج کے ترجمان کے مطابق آپریشن ضرب عضب میں شمالی وزیرستان کا اسّی فیصد علاقہ شدت پسندوں سے پاک کیا جا چکا ہے۔ قبائلی رہنماؤں اور متاثرین کا مطالبہ رہا ہے کہ جو علاقے شدت پسندوں سے صاف کیے جا چکے ہیں وہاں لوگوں کو واپس بھیج دیا جائے۔