|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2015

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور بلوچستا نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے الزام عائد کیا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بلوچستان کا بلینک چیک اسٹبلشمنٹ کے حوالے کیا ہوا ہے اور ہر مرتبہ اسی صوبے کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ ڈان نیوز کے پروگرام ‘دوسرا رخ’ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فوج اور بلوچ عوام میں اختلافات کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن شروع سے فوج نے صوبے کے عوام کی ذہنیت کو ٹھیک سے نہیں سمجھا جس کی بنا پر یہ حالات پیدا ہوئے۔ بی این پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہر دور میں حکومت نے غلطیاں تسلیم کرکے اس صوبے کے عوام سے معافیاں مانگی ہیں، لیکن کیا جو زخم بلوچوں کو دیے گئے ہیں وہ صرف ان معافیوں سے نہیں بھر سکتے۔ صوبے میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہاں کچھ پروکسی گروپس قائم تھے جس کے پاس ایجنسیوں کے کارڈز اور ہھتیار بھی تھے اور وہ لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ یہ بات انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنے چھ نکات میں بھی لکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں کہیں بھی بیرونی مداخلت موجود ہے تو اسے منظرعام پر لایا جائے تاکہ تمام حقائق سامنے آسکیں۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر اختر مینگل نےکہا کہ ہم آج بھی بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن مذاکرات کرنے کے بھی کچھ طریقے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں انہوں نے جو6 نکات پیش کیے تھے اور اگر انہیں سنا جاتا تو آج بلوچستان کے یہ حالات نہ ہوتے۔ اختر مینگل نے کہا کہ اگہ موجودہ حکومت ان چھ انکات پر عمل کرے تو آج بھی صوبے کے حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔