کراچی: سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار کھوڑو نے کیمبرج کے نصاب کے تحت کئی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی ایک کتاب کے کچھ حصوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
لندن کی پیک پبلشنگ لمیٹڈ کی جانب سے ایک ٹیکسٹ بک کا حالیہ ایڈیشن ’’پاکستانی تاریخ اور ثقافت‘‘ کے عنوان سے شایع کیا گیا ہے، اس کتاب کے مصنف نیگل کیلی ہیں، اس کے ایک حصے میں ’خاندانی تنازعات‘ کی ذیلی سرخی کے ساتھ کہا گیا ہے:
’’ستمبر 1996ء میں مرتضیٰ کو کراچی میں اُن کی رہائشگاہ پر ایک پولیس حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس میں ملوث کسی بھی پولیس اہلکار کو گرفتار نہیں کیا گیا اور کچھ کو بعد میں ترقی دے دی گئی۔ ایک عدالتی جائزے میں کہا گیا تھا کہ اس ہلاکت میں حکومت شامل تھی اور اس کے بعد سے بے نظیر بھٹو کے لیے حمایت میں مزید کمی واقع ہوئی۔‘‘
اس کتاب کے ایک اور حصے کا عنوان ہے ’پالیسیاں: مہنگائی، بے روزگاری اور منشیات کی اسمگلنگ‘ اس کی ایک ذیلی سرخی ’سندھ میں مسائل‘ کے تحت تحریر ہے:
’’ایک مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرتے ہوئے بے نظیر بھٹوں نے عہد کیا تھا کہ وہ محض سندھی بولنے والوں کا ہی نہیں بلکہ سندھ کے تمام لوگوں کے مفادات کا تحفظ کریں گی، اور تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں گی۔ لیکن وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھیں، اور سندھی اور مہاجروں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔‘‘
’’تیس ستمبر 1998ء موٹرسائیکل پر سوار مسلح افراد، جنہیں سندھی عسکریت پسند خیال کیا جاتا تھا، حیدرآباد میں ایک ہجوم پر فائرنگ کرکے ڈھائی سو افراد کو ہلاک کردیا، جن میں زیادہ تر مہاجر تھے۔‘‘
صوبائی وزیرِ تعلیم نثار کھوڑو نے کہا کہ ان حصوں میں تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ایک غلط تاثر پیدا کیا گیا ہے۔
اس معاملے کو نوٹس لیتے ہوئے انہوں نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان حصوں کو خارج کیا جائے اور نجی اسکولوں کے ڈائریکٹوریٹ سے کہا ہے کہ اس طرز کی چیزوں پر نظر رکھنے کے لیے وہ نصابی مواد مسلسل نگرانی کریں۔
ڈان کی جانب سے جب نجی اسکولوں کے رجسٹرار رافعہ ملاح سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نصابی کتاب کے ان حصوں سے متعلق سینئر صوبائی وزیر کا مشاہدہ یقیناً درست ہے۔
رافعہ ملاح نے کہا ’’وہ چیزوں کو جس طرح سے دیکھتے ہیں، اس کے پیش نظر انہوں نے حقائق کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم نے منگل کے روز بھی اس سلسلے میں نثار کھوڑو سے ملاقات کی تھی۔ اس ٹیکسٹ بک کا جائزہ لینے اور اس میں اپ ڈیٹ کیے گئے مواد کو دیکھنے کے لیے اب ہم کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامنیشن کی ملکی ڈائریکٹرعظمیٰ یوسف کو اور ان کے ساتھ وفاقی حکومت کو خط تحریر کریں گے۔‘‘
’’اس درسی کتاب کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد ہم نے 2004ء میں شایع ہونے والے اس کے پہلے ایڈیشن کےبارے میں بھی ہم نے محسوس کیا تھا کہ اس وقت جنرل مشرف صدر تھے۔ ظاہر ہے کہ اس دوران بیرون ملک بھی چیزوں کو جس طرح پیش کیا جارہا تھا، اس کا یہ اثر پڑنا ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں آمروں کو بطور ہیرو پیش کیا گیا ہے۔لہٰذا اس کا ایک اور مناسب جائزہ اس سلسلے میں انتہائی ضروری ہے۔‘‘
اسی دوران ڈان نے ای میل کے ذریعے اس کتاب کے ان دونوں حصوں کو مؤرخ اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے سامنے پیش کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’دونوں واقعات درست ہیں۔ اس میں تاریخ کو مسخ نہیں کیا گیا ہے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ سوائے اخبارات کی رپورٹس اور تبصروں کے، کسی قسم کی انکوائری کی غیرموجودگی میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ‘‘
کیمبرج اسکول سسٹم کے تحت پڑھائی جانے والی کتاب کے سرورق کا عکس۔ — |