کراچی : پاکستان کی سمندری حدود میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر اضافہ ہو گیا، سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے وسائل پر بھی پاکستان کو مکمل کنٹرول ہوگا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود نے انیس مارچ 2015 کو اپنا جائزہ مکمل کیا جس کے بعد سمندری حدود میں اضافے کا پاکستانی دعویٰ تسلیم کر لیا ہے۔پاکستان کی سمندری حدود 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل میل ہو گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ 240,000مربع کلو میٹرخصوصی اقتصادی زون کے علاوہ پچاس ہزار مربع کِلو میٹر کا اِضافی کونٹی نینٹل شیلف پاکستان کے زیرِ انتظام آ گیا ہے۔ پاکستان کو ملنے والے اس اِضافی کونٹینینٹل شیلف کے تہہ سمندر اور اُس کے نیچے پائے جانے والے وسائل پر مکمل اِختیار ات حاصل ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک قابلِ تعریف کامیابی ہے کہ ہم اپنے سمندری علاقے میں پائے جانے والے بے پناہ قدرتی وسائل کے حصول سے وسیع معاشی فوائد حاصل کر سکیں گے۔ یہ پوری قوم کے لئے ایک قابلِ فخر لمحہ ہے کیونکہ پاکستان یہ کامیابی حاصِل کرنے والا خِطے کا پہلا مُلک ہے۔بین الاقوامی سمندری قوانین کا آرٹیکل 76ساحلی ممالک کو کونٹینینٹل شیلف 200سوناٹیکل میل سے بڑھا نے کی اِجازت دیتا ہے۔ تاہم ساحلی مُلک کو اقوام متحدہ کمیشن برائے سمندری حدود کے سامنے تکنیکی اعدادوشمار اور مواد کے ذریعے اپنا کیس ثابت کرنا پڑتا ہے، یہ کمیشن ہائیڈرو گرافی، جیوفزکس، جیولوجی اور دِیگر متعلقہ شعبہ جات کے 21ماہرین پر مشتمل ہوتاہے۔ پاکستان کو بھی اِس تنظیم میں نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔ پاک بحریہ کے ہائیڈروگرافر کموڈور محمد ارشد اِس کمیشن کے رُکن ہیں۔پاکستان کی سمندری حدود میں اِضافے کا منصوبہ 2005ء میں پاک بحریہ اور نیشنل اِنسٹی ٹیوٹ آف ہائیڈروگرافی نے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی سر پرستی کے ساتھ مشترکہ طور پر شروع کیا۔ 4سال کی انتھک محنت اورضخیم اعدادوشمارجمع کرنے اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد 30اپریل 2009کو یہ کیس اقوام متحدہ کے کمیشن کو باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا۔پاکستان کی باری آنے پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود کے ایک 7رُکنی سب کمیشن نے پاکستان کی درخواست کا بغور جائزہ لیا اور ایک سال تک مسلسل تجزیہ اور تحقیق کرنے کے بعد آخرکار اقوام متحدہ کے کمیشن نے پاکستان کے کونٹینینٹل شیلف کی حد 200سے بڑھا کر 350ناٹیکل میل کرنے کی سفارشات منظور کرلیں۔اِس مرحلے کے دوران پاک بحریہ کے جج ایڈوکیٹ جنرل کموڈور ظفر منصور ٹیپو،پراجیکٹ ڈائریکٹر اور نیشنل اِنسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر آصف اِنعام، پاکستان نیوی ہائیڈروگرافی ڈپارٹمنٹ کے کمانڈر سلمان احمد خان، نیشنل اِنسٹی ٹیوٹ آف اوشینوگرافی کے خالد محمود اور محسن تبریز پر مشتمل پاکستان کے تکنیکی وفد نے اس اہم ذمہ داری کو نبھایا اور اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔آخری مرحلے میں پاکستان کے وفد نے اقوم متحدہ میں پاکستان کی مستقل نمائندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی سربراہی میں 10مارچ 2015کو اپنا مؤقف پیش کیا۔ایک مدلل بحث کے بعد اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدودنے پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستانی وفد کی طرف سے مسلسل پیروی اور بروقت کاروائی کی بدولت یہ پورا مرحلہ نسبتاً ایک قلیل عرصے میں کامیابی کے ساتھ پایہء تکمیل کو پہنچا۔یہ تاریخی کامیابی آنے والی نسلوں کی معاشی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی جومتعلقہ محکمہ جات اور وزراتوں میں بہترین تعاون و رابطوں اور ایک دہائی پر مشتمل مسلسل حکُومتی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک بڑی قومی کامیابی ہے جِس کے ثمرات قوم کو مستقبل میں حاصل ہوں گے۔ اِس منصوبے سے مُنسلک تمام افراد کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں اور پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔ اب ہمیں قومی مفادکی خاطر میری ٹائم زونز کے معاشی ذرائع کو بروئے کار لانے کے لئے تمام وسائل کا استعمال کرنا ہو گا ۔