جنیوابیس مارچ بروز جمعہ جنیوا میں Unrepresented Nations and Peoples Organisation (یو این پی او) کی جانب سے ’’ بریڈ ہیومین رائیٹس ، گلوبل جیو پولیٹکس اینڈ ریجنل پرکشنز ، بلوچستان اِن شیڈوز‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس روم 23 میں منعقد ہوا ۔ جس میں اقوامِ متحدہ میں بلوچوں کے نمائندے مہران بلوچ کے علاوہ نورالدین مینگل،بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم ) کے نمائندے فارن سیکریٹری حمل حیدر بلوچ اور کئی دوسرے مقررین نے خطاب کیا۔ جن میں ٹی کمار( انٹرنیشنل ایڈوکیسی ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹر نیشنل امریکہ) ، برزین واگمر( سینئر ٹیچنگ فیلو SOAS ) ، روس ہیبرٹ( رکن کینیڈین پارلیمنٹ ) ، کارلوس زروٹوزا( فری لانس صحافی ، الجزیرہ ) ، پیٹر چاک (سینئر پولیٹیکل سائنٹسٹ RAND کارپوریشن امریکہ ) اور اطہر حسین ( ڈائریکٹر آف ایشیا ریسرچ سینٹر ، لندن اسکول آف اکنامکس برطانیہ) شامل تھے ۔ مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں ، عالمی و علاقائی سیاسی تبدیلیوں کا بلوچستان پر اثرات کے حوالے سے تفصیلاََ بحث و مباحثہ کی ۔حمل حیدر بلوچ نے بلوچستان میںKill and Dump پالیسی اور بلوچستان کے سیکولر معاشرے کو مذہبی انتہا پسندی میں تبدیل کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسٹبلشمنٹ مذہبی انتہا پسندوں کی کھلم کھلا حمایت کر رہی ہے جو ان کے اسٹریٹجک اثاثے جانے جاتے ہیں ۔حال ہی میں ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان بلوچ جد و جہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ و مذہبی منا فرت کو ہوا دے رہی ہے ۔ بلوچ ہمیشہ سے سیکولر رہے ہیں اور بلوچوں میں مذہبی عنصر کبھی بھی حاوی نہیں رہا ہے مگر بلوچ قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مذہبی قوتوں کو طاقتور بنانے میں براہ راست ملوث اور بڑی رقم خرچ کر رہا ہے جو نہ صرف بلوچ قوم کیلئے ایک خطرہ بلکہ پورے خطے کیلئے ایک خطرناک منصوبہ ہے ۔ حمل حیدر بلوچ نے مزید کہا کہ سیاسی رہبروں و کارکنوں کا قتل روز کا معمول بن چکا ہے ، بی این ایم کے کئی رہبر و کارکنوں سمیت بی این ایم کے بانی سر براہ کو اغوا کرکے تشدد کے بعد شہید کرکے ویرانوں میں پھینک دیا ۔ اب بھی ہزاروں بلوچ فرزند زندانوں میں سالوں سے اذیتیں برداشت کر رہے ہیں اور کئی مسخ شدہ لاش یا اجتماعی قبر وں کی صورت میں ناقابل شناخت حالت میں برآمد ہوئی ہیں مگر پاکستانی و انٹر نیشنل میڈیا میں ان کا کوئی ذکر نہیں جبکہ لوکل و علاقائی صحافیوں کو ایسی رپورٹنگ پر ریاست کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ،کئی صحافی اسی پاداش میں قتل کئے جا چکے ہیں ۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ کی مثالیں ولیم مارکس یا کارلوٹا گال جیسے صحافیوں کو بلوچستان میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ اس بلوچ نسل کشی میں نہ صرف بلوچ سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ ماہر تعلیم ، اساتذہ و دوسرے پیشہ ور ماہرین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ، دو درجن سے زائد کتابوں کے خالق پروفیسر صبا دشتیاری اور بلوچستان میں تعلیم کی فروغ میں اعلیٰ خدمات سر انجام دینے والے زاہد بلوچ آسکانی اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے بلوچستان میں مداخلت و بلوچ جدو جہد کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتی ہے ۔آزاد بلوچستان خطے و دنیا میں امن کی کنجی و ضمانت ثابت ہوگی۔