|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2015

کوئٹہ:  بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی گرفتار ی کو ایک سال مکمل ہونے پر بلوچ نیشنل فرنٹ ( بلوچ راجی سنگر )کی جانب سے بالگتر میں22مارچ کو ایک عوامی جلسہ ’’ بنام زاہد بلوچ اور بیاد شہدائے مارچ منعقد کیا گیاجس کی صدارت بی این ایف کے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کی جبکہ مہمان خصوصی بلوچ نیشنل موومنٹ کے وائس چیئرمین کامریڈ غلام نبی بلوچ تھے ۔ جلسہ کی شروعات شہدائے آزادی کی یاد میں خاموشی سے ہوئی اور قومی ترانہ کے بعد باقاعدہ جلسہ کا آغاز ہوا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ نے کہا مارچ کے مہینے نے بلوچ کو کئی زخم دئیے ہیں، سب سے کاری ضرب 27مارچ 1948ء کو مادر وطن بلوچستان پر تسلط کی صورت میں لگا ، ، اسی مارچ کے مہینے میں ڈیرہ بگٹی میں خونی فوجی آپریشن کیا گیا ،اسی مہینے چیئرمین زاہد بلوچ کو گرفتار کیاگیا۔ زاہد صرف بی ایس او یا بلوچ کے لیڈر نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے لئے ایک توانا آواز ہے جو دوسرے ہزاروں بلوچ فرزندوں کی طرح دشمن کی زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں لیکن ایسے ہی نوجوانوں کی شعوری جدوجہد اور شبانہ روز محنت سے بی ایس او ایک ادارے کی حیثیت سے قائم ہے اور قائم رہے گا کیونکہ یہ آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اُس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ ایک مضبوط نظریہ پر کاربند ہو ،زاہد بلوچ اور ذاکر مجید جیسے انسانوں کی گرفتاری و ہزاروں شہدا کی شہادت سے ہمیں نقصان ضرور ہوا ہے لیکن جدوجہد میں عظیم قربانیوں سے آج عوام میں ابھرتی قومی جذبہ ، او ر پارٹی اداروں سے استوار رشتوں کی بدولت ہماری تحریک تیزی سے منزل کی جانب گامزن ہے، ہمیں ان قربانیوں پر فخر ہے ۔عوامی شعور اور تحریک میں کامیاب پیش رفت تمام نقصانوں کی تلافی ہے۔زاہد کو لاپتہ کرنے سے دشمن کبھی بھی اپنی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا ،دشمن نے چیئرمین زاہد بلوچ کو غائب نہیں کیابلکہ پوری دنیا میں زاہد بلوچ کی کردار و شخصیت کو نمایاں کردیا ہے ۔ قابض قوتیں ہمیشہ مظلوم اور محکوم قوموں کے سربراہ اور نمایاں شخصیات کو نشانہ بنا تے ہیں تاکہ ان میں توانا آواز اور سیاسی ادارک کے مالک رہنما نہ رہیں اور ر ہنمائی سے محروم ہوکرتحریک اندھی کھائی میں جاگریں ۔ہمیں اپنے رہنماؤں کی بازیابی اور ان کی مقصد کے لئے بھرپور انداز میں آواز اٹھاکر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ زاہد صرف بی ایس او ،بلوچ کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم قوموں کا لیڈر ہے جس کے دل میں دنیا بھر کے مظلوموں کا دل سمیٹا ہے ،ہمیشہ قابض اپنے مقبوضہ کے مقا بلے میں ہزارگنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اس کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے اس کے مقابلے میں محکوم قوم کے لئے جنگی حالات میں وسا ئل اورقوت ضرور اہم شئے ہوتے ہیں لیکن قومیں عزم اور حوصلے سے اپنی قومی جنگیں جیت لیتے ہیں ۔عوامی قوت اُ س وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب عوام عصری شعور سے لیس ہو،اگر قوم میں شعور، حوصلہ اور قومی مقصد سے لگن نہ ہو تووہ وسائل اور قومی قوت انہیں کام نہیں دیتا۔آج قومی تحریک ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے کہ عوامی شعور کا تقاضا محض جلسوں میں شرکت اور اظہارِ یکجہتی تک محدود نہیں بلکہ ہر اُس سازش کو ناکام بناناہے جو قومی تحریک کے خلاف ہورہے ہیں۔ وہ گروہ اور شخصیات جو بلوچ قوم کی مقدر پر مسلط ہونا چاہتے ہیں ان کامحاسبہ کریں، اگر آج ان قوتوں جن کے کندھوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بندوق رکھا ہوا ہے، انہیں اپنا لیڈر مان کر اگر ہم ان سے سوال کرنے کے قابل نہ ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آزادی کے سوال کا فہم حاصل نہیں۔آج ہمیں اس با ت کا ادراک کرنا ہوگا کہ دنیا کی سیاست اور ان کی ترجیحات ہم پرکس طرح مرتب ہوتے ہیں ۔چائنا ایک کمیونسٹ اور انسانی برابری کا دعویدار ملک کہلاتا ہے، آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ اپنے قومی مفادات کے لئے استعماری پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں انہیں ہماری کامیابی کی صورت میں نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اس نے بلوچستان میں بے تحاشا سرمایہ لگایا ہے اور مزید سرمایہ لگارہے ہیں، چین اپنی توسیع پسندانہ عزائم کو لے کرمعاشی فوائد کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کو اس خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لانے کے لئے پاکستان کی مدد کررہا ہے تاکہ بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کیا جا سکے۔عالمی طاقتیں بلوچستان میں قابض اور ہماری اپنی صفوں میں موجود عناصر سے ڈیل کرکے یہاں سرمایہ کاری کے لئے ہر قسم کی سازش اور منصبوبہ بندی کررہے ہیں جیسا کہ خان سلیمان جسے کل بلوچ یہ سمجھ کر اپنا لیڈر مانتے تھے کہ وہ عالمی دنیا میں آزادی کا مقدمہ لڑیں گے، لیکن آج وہ مختلف کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کررہے ہیں۔بلوچ نیشنل فرنٹ جنگی حالات اور دورانِ غلامی قومی دولت بیچنے کی حق میں نہیں ،اس لئے اُن ساہو کاروں نے خان سلیمان کی پشت پناہی شروع کردی۔دنیا کی تمام استعماری و سامراجی طاقتیں گراؤنڈ میں حقیقی سیاسی پارٹی اور تنظیموں کی موجودگی میں اپنے مقصد کی حصول میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں ۔ بلوچ عوام سے تحریک یہی تقاضا کرتا ہے کہ وہ تحریک کا ناقبلِ تسخیر حصہ بن جائیں اور دشمن کی سفاکیت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود دشمنی پر آمادہ عناصر کا محاسبہ کریں ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ بلوچ قومی تاریخ کے ایسے دور میں زندہ ہیں کہ بلوچ وطن کو ہماری ضرورت ہے ۔ یہ زمین جب تک ہے بلوچ باقی ہے جب یہ زمین ہاتھ سے چھن جائے گی تو بلوچ کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ۔گرفتاری و لاپتہ ہونے کے خوف سے کتنے دن ہم سچائی سے بھاگ سکتے ہیں کیونکہ بھاگنے والوں کی پاؤں تلے زمین بھی نکل جاتی ہے ۔ بلوچ عوام اگر سیاست سے منسلک نہ ہوئے تو ہماری آنے والے نسلوں کے نصیب میں ایک آزاد وطن نہیں بلکہ مہاجرین کیمپ ہونگے ۔کیونکہ تمام پارٹی ،تنظیم بلوچ عوام کی تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں اور اگر عوا م حقائق کی جانکاری نہ رکھے تو آزادی کے نام پرہمیں کوئی بھی دھوکہ دے سکتا ہے ۔محض نعروں پر بھروسہ کرنے اور اندھی تقلید کرنے والے نہ اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ اسے برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ قومی آزادی کی جنگیں اپنی ہی قوت بازو سے لڑی اورجیتی جاسکتی ہیں ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے وائس چیئرمین کامریڈ غلام نبی بلوچ نے کہا ،جلسے میں اتنی بڑی تعد اد میں خواتین و حضرات کا ان جنگی حالات میں اپنے قومی اجتماعوں میں شرکت اس بات کا غماز ہے کہ بلوچ باشعور اور اپنے قومی تحریک کے تئیں ہر قسم کی حالات کا جبر سہنے اور مقابلہ کرنے کاحوصلہ اور صلاحیت رکھتا ہے ۔ آج کا یہ عظیم الشان جلسہ بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کے نام اور شہدائے مارچ کی یادمیں منعقد کیا جارہا ہے۔ زاہد بلوچ ایک اُمیداور قوم کے مستقبل کا لیڈر ہے۔یہ آزادی کے تحریک کی اولین سچائی ہے کہ اس راہ میں ہزاروں فرزندوں کو قربان ہونا ہے۔دشمن چھن چھن کر ہمارے اُن نمائندوں کو شہید کر رہاہے ،لاپتہ کررہا ہے جو ہمارے مسقبل کی تعمیر کررہے ہیں ۔