|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2015

تہران : ایران نے جمعرات کو سعودی عرب کی طرف سے یمن کے اندر حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک’خطرناک قدم‘ ہے اور جو بین الاقوامی ذمہ داریوں اور یمن کی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ایرانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان مرزاہ افقام نے کہا ہے کہ بیرونی فوجی کارروائی یمن کے اندر صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دے گی، بحران مزید پھیل جائے گا اور یمن کے اندرونی اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے راستے معدوم کر دے گا۔انہوں نے فضائی حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جارحیت کو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا سوائے اس کے اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو گا اور پورے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔‘اسی طرح کا بیان ایرانی پارلیمان کی قومی سلامتی اور خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ علیدین بروجردی نے بھی دیا اور سعودی عرب کے رویے کو انتہائی غیر ذمہ دارنہ قرار دیا۔انھوں نے فارس نیوز ایجنسی کو ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب خطے میں ایک نئی جنگ کو ہوا دے رہا ہے جو انتہائی ذمہ دارانہ اقدام ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یمن کی جنگ سے اٹھنے والا دھواں سعودی عرب کو بھی متاثر کرے اور جنگ کبھی کسی ایک خطے محدود نہیں رہتی۔ انھوں نے کہا کہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے اور یمن کے مسئلہ کو سیاسی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔یمن میں حوثی قبائل ساحلی شہر عدن کی طرف پیش قدمی کر رہے جہاں صدر عبدالربوہ منصور ہادی صنعا سے فرار ہونے کے بعد مقیم ہیں۔گزشتہ روز یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ وہ عدن سے بھی نکل کر کسی نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے ہیں۔حوثی قبائل کی پیش قدمی سے سعودی عرب میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ قبائل کہیں سنی اکثریت والے ملک یمن پر قابض نہ ہو جائیں اور سعودی عرب چاروں طرف سے ایران کی حمایت یافتہ قوتوں کے نرغے میں آ جائے۔بروجردی نے امریکہ کو سعودی فضائی حملوں کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔انھوں نے کہا کہ امریکہ ہمیشہ سے خطے میں آگ لگانے میں پیش پیش ہوتا ہے اور عرب تعاون کونسل میں شامل چند ممالک امریکی کی مرضی کے بغیر اس میں شامل نہیں ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ عراق، شام اور افغانستان میں طویل عرصے تک خونریزی جاری رکھنے کے بعد اب امریکہ خطے میں ایک اور بحران کا باعث بن رہا ہے اور اس کی پروزر اندز میں مذمت کی جانی چاہیے۔