کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں سبی میں چاکرخان رند یونیورسٹی کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس یونیورسٹی کے قیام سے سبی ‘ نصیر آباد ڈویژن بلکہ بلوچستان بھر کے عوام کو فائدہ پہنچے گاچاکرخان رند بلوچوں کی تاریخ میں سب سے اہم شخصیت رہے ہیں اوران کے دورحکمرانی کاآغازبھی سبی سے ہواان کے نام سے سبی میں ایک بڑی جامعہ کاقیام ایک خوش آئند اقدام ہے بلوچستان نیشنل پارٹی اس اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے اوراس بات پربھی زوردیتی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کودورکرنے کیلئے مزید تعلیمی ادارے قائم جائیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر حکمرانوں نے جامعہ کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تھی اس کی بھرپور مذمت کی جائے گی ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان میں علم و آگاہی کے فروغ کیلئے مثبت عملی اقدامات کئے جائیں لیکن موجودہ حکمران ایسے اقدامات میں سست روی سے کام لے رہے ہیں جس کی واضح مثال بلوچ علاقوں کیلئے یو ایس ایڈ کی جانب سے ریڈنگ پروجیکٹس ہیں جنہیں ختم کرا دیا گیا بلوچستان کے اکثر جامعہ میں غیر بلوچوں کی تعیناتی اور بلوچ سینئر اساتذہ کو دیوار سے لگانے ‘ محکمہ تعلیم میں سینکڑوں کی تعداد میں جونیئر کو سینئر پر ترجیح دینا ‘ بلوچ علاقوں کیلئے مختص آسامیوں کو منسوخ کرنا ‘ پبلک سروس کمیشن کی آزاد و خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے اسے سیاسی ادارہ بنانا یہ تمام اقدامات ایسے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نہیں بلکہ میرٹ کی دھجیاں اڑانے اور علم و آگاہی کی راہ کو تباہی کی جانب گامزن کرنے کی کوششیں ہیں موجودہ حکمرانوں جو عوامی مینڈیٹ سے محروم ہیں وہ تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی بجائے رخنہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ چاکر خان رند کے نام سے منسوخ جامعہ کا قیام جلد تکمیل تک پہنچایا جائے یہ نہ ہو کہ اس کو بھی سردہ خانے کی نظر کر دیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ اخباری بیانات کے ذریعے دعوؤں سے پڑھا لکھا بلوچستان کا خواب پورا نہیں ہو گا بلکہ لسانی تعصب سے بالاتر ہو کر میرٹ اور غیر جانبدارانہ مثبت پالیسیوں اور عملی طور پر انقلابی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تب ہی ہم یہ کہہ سکیں کہ موجودہ صوبائی حکومت تعلیم کے فروغ کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اب تک حکمرانوں نے جو بھی اقدامات تعلیم کے حوالے سے اٹھائے وہ تعلیمی دشمن اقدامات کے مترادف ثابت ہوئے بلوچستان کے بیشتر سکولوں میں غیر طلباء و طالبات کو کتابیں تک میسر نہیں کوئٹہ جیسے شہر خصوصاً سریاب کے سکولوں میں اب تک کتابیں اور بیٹھنے کیلئے ڈیسک اور ٹاٹ کی سہولت تک میسر نہیں صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ جلد از جلد چاکر خان رند یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ بلوچستان اکیسویں صدی میں بھی تعلیم اداروں کی کمی کا سامنا کر رہا ہے وسیع و عریض سرزمین کے دور دراز علاقوں کے طلباء کی مالی حیثیت اتنی نہیں کہ وہ دوسرے علاقوں میں جا کر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر سکیں سبی میں یونیورسٹی کے قیام سے نصیر آباد ‘ بولان ‘ سبی ‘ صحبت پور و دیگر علاقوں کے غریب نوجوانوں طلباء و طالبات باآسانی تعلیم حاصل کر سکیں گے اسی طریقے سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سکول ‘ کالجز ‘ یونیورسٹیز قائم کی جائیں تعلیمی اداروں میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروریات پوری کی جائیں تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے میٹرک تک تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے اقدامات کئے جائیں ملک کے دیگرصوبوں میں محکمہ تعلیم اور حکومتیں تعلیم کے حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں بلوچستان حکومت بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے تعلیم عام کریں فوری طور پر تعلیمی اداروں میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے -تا کہ بلوچستان میں علم و آگاہی کو فروغ مل سکے آزاد و خودمختار اداروں میں سیاسی مداخلت کی جائے –