|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2015

کوئٹہ: بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے گزشتہ روز بلوچستان کے سرحدی علاقے ڈیرہ اللہ یار میں جنگ زدہ علاقوں سے نکل مکانی کرنے والے بلوچ مہاجرین کی کیمپوں میں آپریشن ، خواتین و بچوں کی گرفتاری اور جھاؤ کے مختلف علاقوں میں ہونے والے آپریشن و گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ آبادیوں کوان کے علاقوں سے بیدخل کرنے کے بعد فورسز آئی ڈی پیز کیمپوں میں بھی اپنا ظلم و جبر برقرار رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔بلوچ خواتین و بچوں پر تشدد و انہیں ٹارچر سیلوں میں منتقل کرنے کی کاروائیاں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی کردار پر سوالیہ نشان ہے۔اس کے علاوہ مہنیوں پہلے اغواء ہونے والے بلوچ فرزندوں کی لاشیں نوشکی میں پھینک کر انہیں فائرنگ کے تبادلے میں ہونے والی ہلاکتیں ظاہر کرکے فورسز رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہیں ہیں۔نوشکی میں شہید کیے جانے والے بلوچ فرزندوں میں چار ماہ قبل نوشکی سے اغواء ہونے والے محمد عامر ولد یار محمد،اور منگچر کے رہائشی محمد قذافی جسے اگست 2014 کو کوئٹہ سے اغواء کیا گیا تھا، کے لاشوں کی شناخت ہو گئی۔ جبکہ باقی دو لاشوں کی شناخت تا حال نہ ہو سکی۔ ترجمان نے کہا کہ ان اسیران کی لواحقین پچھلے کئی مہینوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے تھے، لیکن آج ان کی لاشیں پھینک کر اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کو چھپانے کے لئے فورسز انہیں مقابلے میں مارنے کے جھوٹے دعوے کررہی ہیں۔ علاوہ ازیں یکم اپریل کی صبح فورسز نے جھاؤ کے واجہ باغ و گرد و نواح کے علاقوں کو گھیرے میں لیکر حسبِ روایت عورتوں و بچوں کو اپنی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا، گھروں میں موجود قیمتی سامان لوٹنے کے بعد علاقوں سے ایک درجن سے زائد نہتے بلوچ فرزندوں کو اغواء کرکے فوجی کیمپ منتقل کردیا گیا۔ فورسز بلوچ سرزمین پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے و نوآبادیاتی تسلط کو قائم رکھنے کے لئے چائنا و دیگر ممالک کی سرمایہ کار وں اور کمپنیوں کی مدد سے بلوچ تحریک کے خلاف دہشتگردانہ کاروائیوں میں تیزی لارہی ہیں۔ جس کے تحت بلوچستان میں آ ئے روز بلوچ آبادیوں پر فورسز فضائی بمباری و زمینی آپریشن کررہی ہے۔ ان کاروا ئیوں میں اب تک خواتین و بچوں سمیت ہزاروں نوجوان شہید و زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں فورسز کی خفیہ قید خانوں میں غیر انسانی اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچ سرزمین پربلوچ قومی مرضی کے خلاف ہونے والی سرمایہ کاری کو بلوچ عوام کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی، اسی خطرے کے پیش نظر ریاستی ادارے بلوچ قوم کی نسل کشی سمیت دیگر حربوں کے زریعے بلوچ تحریک کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ایک طرف ریاست برائے راست آپریشن گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے عمل میں تیزی لا رہی ہے تو دوسری طرف مذہبی منافرت کے نام پر فورسز براہ راست خود بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے اور بلوچ معاشرے کی سیکولر روایات کو دھندلا کرنے کے لئے بلوچ اساتذہ و خواتین طلباء کو دھمکیاں دے رہے ہیں، گزشتہ روز صحبت پور میں سکول کو دھماکے سے اڑانے و کیچ کے علاقے کوشقلات میں گرلز طلباء کو دھمکی دینے کی کاروائیاں بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی انہی کاروائیوں کی کڑیاں ہیں۔بلوچ قومی سیاست میں بلوچ خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے ریاست کو حواس باختہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے ریاست آئے روز بلوچ تعلیمی اداروں پر حملہ کر کے بلوچ نسلوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کر رہی ہے اور دوسری طرف فورسز اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کو چھپانے اور بلوچ قومی تحریک کو غلط رنگ دینے کے لئے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے عالمی اداروں سے اپیل کی وہ بلوچستان کے صحیح صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اپنے نمائندے اس خطے میں بھیج دیں، تاکہ دہشتگردی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی حقیقت کو دنیا کو سامنے آشکار کیا جاسکے۔