|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2015

کوئٹہ: لاپتہ بلوچ اسیران، شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2030 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں میر محمد عالم مری سینئر وائس چیئرمین حمیم اپنے وفد کے ساتھ لاپتہ افراد، شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست سے جنگ تو جاری ہے دنیا میں ہر قوم کا حق ہے ۔ آزادی لینا لیکن آج تک کسی بھی مہذب ملک پاکستانی حکمرانوں کی طرح چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرکے سندھ بلوچستان کے سرحدی علاقے سے بگٹی قبیلہ کے کمسن اور معصوم بچوں اور خواتین کو لاپتہ کیا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اور خفیہ ادارے اب ناکام ہوچکے ہیں کہ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو اس طرح کے منفی حربوں سے نشانہ بنارہی ہے ۔ جو عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ اس سے پہلے بھی مشکے آواران تربت میں بھی اسی کی حربے استعمال کرتا رہا ہے ۔ لیکن وہاں بھی اُن کو ناکامی ہوئی۔ ڈیرہ بگٹی سے پہلے ہی چھ خواتین کو اغواء کرکے لے گئے تھے ۔ جن کی ہم اپنی پارٹی کی طرف سے شدید احتجاج کرتے ہیں اور مذمت کرتے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ ، جنرل سیکریٹری فرزانہ مجید بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کا دعوی کہ بلوچستان کے حالات بہتر ہوچکے ہیں۔ اب نہ کوئی لاش گرتا ہے اور نہ کوئی اغواء ہوتا ہے ۔ صوبائی حکومت سے ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلے حکومتوں میں کم از کم شیرخوار بچوں یا خواتین کو تو اُٹھایا نہیں جاتا تھا۔ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے میڈیا کا سہارا لیکر کہ بلوچستان میں امن آتشی ہے۔ ایک دن میں پانچ پانچ لاشوں کا ملنا یہ امن کا ثبوت ہے ۔ درجنوں مرد، خواتین کو اغواء کرنا یہ آتشی اور امن کا گہوارہ ہے۔ اس سے زیادہ بلوچستان میں امن کوئی حکومت قائم نہیں کرسکتا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قومی آزادی کو اس طرح نشانہ بناکر کامیابی حاصل کرنا حکمرانوں کی خام خیالی ہے اور نہ ہی بلوچوں کو اس طرح کے حربوں سے زیر کیا جاسکتا ہے۔ ہم اقوام متحدہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تمام انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا نوٹس لیں اور بلوچستان میں جاری ظلم و بربریت کے خلاف اپنا کردار ادا کریں اور تمام لاپتہ افراد سمیت شیر خوار بچوں خواتین کی بازیابی ممکن ہوسکے۔