|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2015

اسلام آباد: یمن بحران پر بلایا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس کو کل شام 4 بجے تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پرعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اسپیکر سے شکوہ کیا کہ انھیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا، جس پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ’ شیخ صاحب آج بھی آپ کا نام لیا گیا لیکن آپ موجود نہیں تھے، اب آپ کو کل بولنے کا موقع ملے گا’۔ شیخ رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘اسپیکر کا جب دل چاہتا ہے وہ اجلاس ملتوی کردیتے ہیں’۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی تھی، جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اسے ‘قومی اہمیت کا معاملہ’ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ کل یعنی مشترکہ اجلاس کے دوسرے روز وزیراعظم نواز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن کے مسئلے پر حکومت کو کوئی خفیہ فیصلہ نہیں کرنا تھا، پارلیمنٹ کا اجلاس تجاویز کے لیے طلب کیا گیا ہے جن کی مدد سے پالیسی ترتیب دی جائے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کو یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ کی رہنمائی چاہیے۔ مزید پڑھیں:’یمن کی صورتحال پر پارلیمنٹ سے رہنمائی چاہیے’ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران کو بھی یمن کے حوالے سے اپنی پالیسی پر غور کرنا چاہیے۔ یہ حساس معاملہ ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف بھی پاکستان آ رہے ہیں، جن سے یمن کے معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔ واضح رہے کہ حکومت بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ ابھی تک یمن میں فوج بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم اگر سعودی عرب کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے تو اس کا دفاع کیا جائے گا۔ جبکہ سعودی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی اتحادی فورسز میں شامل دس سے زائد ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ بھی پڑھیں:یمن تنازع: اپوزیشن کا حکومت کو ثالث بننے کا مشورہ پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی تقریباً 7 ماہ بعد اسمبلی میں واپس آگئی ہے۔ پی ٹی آئی کی واپسی کو بیشتر اراکین اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران اس معاملے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف یمن کے حوالے سے ہی اظہار خیال کیا۔

لائیو اپ ڈیٹس کا اختتام


وزارت خارجہ نے یمن کے مسئلے پر روایتی بریفنگ دی، سعید غنی

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سعید غنی کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ نے یمن کے مسئلے پرصرف روایتی بریفنگ دی، لہذا وزارت خارجہ ناکام وزارت کے مترادف نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم سے اتفاق کرتے ہیں کہ یمن کا مسئلہ بہت حساس ہے، لیکن یمن میں شیعہ سنی کی لڑائی نہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ حقائق سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرے۔ انھوں نے حکومت سے تمام صورتحال سے آگاہ کرنے اوراِن کیمرہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔

‘یمن کو چھوڑ دیا گیا تو وہاں القاعدہ، داعش کا کنٹرول قائم ہوجائے گا’

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تیسرے روز اظہار خیال کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ دوسروں کی جنگ میں پڑ کر ہم نے بہت کچھ کھویا، لیکن سب سے زیادہ قربانی خیبر پختونخوا کے عوام نے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو وہاں القاعدہ اور داعش اپنا کنٹرول قائم کرلیں گے لہذا میری حکومت سے یہ درخواست ہے کہ اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی میں واپسی کو بھی خوش آئند قرار دیا۔

اگر سعودی عرب کو امداد چاہیے تو فراہمی پر غور کیا جائے گا، عبدالقیوم

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عبدالقیوم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی سرحد 7 ہزار میل پر مشتمل ہے، جس کے دفاع کے لیے ان کے پاس فوج پوری نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو داعش اور فرقہ وارانہ مسائل کا سامنا ہے، جسے اگرچہ ہم اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن ان (سعودی عرب) کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس پر اگر انھیں امداد چاہیے تو اس کی فراہمی پر غور کیا جائے گا۔ عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ یمن کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگائے بغیر سعودی عرب سمیت ہر دوست ملک کی سالمیت کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قدم اٹھانا چاییے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی اس بات کا بہتر فیصلہ کیا جاسکے گا کہ اس جنگ میں ہمارا کرار کیا ہونا چاہیے۔

وزیراعظم نواز شریف کی آمد

‘پاکستان کسی پراکسی وار کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا’

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے پاس بہترین ہتھیار ہیں جبکہ یمن کے پاس کچھ نہیں، پھر سعودی عرب کی سلامتی کو آخر کس طرح خطرات لاحق ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج طالبان کی شکل میں انتہائی بے رحم دشمن کا مقابلہ کررہی ہے، لہذا پاکستان کسی پراکسی وار کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

‘پاکستانی فوج دوسروں کی جنگ لڑنے کے لیے نہیں جانی چاہیے’

تحریک انصاف کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیریں مزاری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوجیوں کو کسی اور ملک کی جنگ میں نہیں جھونکنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی درخواست یمن کی جنگ کےلیے آئی ہے اور اس درخواست کا سعودی عرب کے دفاع سے کوئی تعلق نہیں۔ شیریں مزاری کے مطابق اصل معاملہ سعودی حکومت کی سلامتی نہیں بلکہ یمن کی جنگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ عمان، یمن کا پڑوسی ہونے کے باوجود اس جنگ میں حصہ نہیں لےرہا، لہذا پاکستان کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے اورغیر جانبداررہتے ہوئے یمن میں امن کی کوشش کرنی ہوگی۔ شیریں مزاری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستانی فوج دوسروں کی جنگ لڑنے کے لیے نہیں جانی چاہیے۔

سعودی عرب میں مقدس مقامات کو کوئی خطرہ نہیں، عثمان خان

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تیسرے روز اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر عثمان خان نے کہا کہ سعودی عرب میں مقدس مقامات کو کوئی خطرہ نہیں اور یمن کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ اور او آئی سی کے ذریعے نکالا جانا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو کسی صورت فوج یمن نہیں بھیجنی چاہیے۔

یمن بحران فوجی نہیں سیاسی ہے، سینیٹر مظفر حسین شاہ

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹرمظفرحسین شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر مرکوز ہیں۔ یمن بحران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘یہ فوجی نہیں سیاسی بحران ہے’۔ مظفر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘سیاسی بحران کو سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جانا چاہیے’۔

جمشید دستی سائیکل پر

واضح رہے کہ جمشید دستی نے گزشتہ کئی روز سے کرپشن کے خلاف احتجاج کررکھا ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تیسرے روز رکن اسمبلی جمشید دستی سائیکل پر اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے۔