|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2015

گوادر:  بلو چستان کی ترقی تعلیم میں مضمر ہے ۔ ہا ئیر ایجو کیشن بلوچستان کے طلبہ کے لےئے خصوصی رعا یت اعلان کر ے۔ صو بائی حکومت تعلیم کے فروغ کے لےئے عملی اقدامات کر رہی ہے ۔ تین میڈیکل کالجز اور یو نیورسٹی کا قیام صو بائی حکومت کی تعلیم کے فرو غ کے لےئے بھرپور کمٹنٹ کا اظہار ہے ۔ ملک کے 26وائس چا نسلروں کا گوادر میں کا نفرنس تعلیمی ترقی کے لےئے اہم کر دار ادا کر سکتا ہے ۔ ان خیا لات کااظہار وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالما لک بلوچ نے یہاں گوادر میں انٹر یو نیورسٹی کنشو ریم بر ائے ترقی سما جی علوم کی منا سبت سے دو روزہ کا نفرنس کے افتتاحی تقر یب جس کا اہتمام تر بت یو نیورسٹی کی جانب سے کیا گیا ہے سے خطا ب کے دوران کیا وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ ملک کے دیگر صو بوں میں بلوچستان کے حالات کی ابتری کے حوالے سے تاثر قطعی طور پر درست نہیں مخلو ط حکومت کے قیام کے بعد حالات بتدریج تبد یل ہور ہے ہیں ہماری کوششوں کی وجہ سے حالات میں بہتری کے لحاظ سے 45فیصد اضافہ ہوا ہے کوئٹہ اور خضدار سمیت دیگر شہروں میں زندگی رواں دوا ں ہے خدارا بلوچستان کو سمجھنے کی کوشش کر یں ہم تعلیمی حوالے سے بہت پیچھے ہیں ہمیں ملک کے دانشوروں اور اداروں کی سر پر ستی کی ضرور ت ہے یہاں کے لوگ تعلیم سے کماحقہ دلچسپی رکھتے ہیں جس کی واضح مثال بلوچستان یو نیورسٹی کے تعلیمی معیار میں اضافہ ہونا ہے خضدار انجےئر نگ یو نیورسٹی بھی کوالٹی ایجو کیشن پیدا کر رہی ہے جبکہ صو بائی حکومت تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لےئے بھر پورانہماک رکھتی ہے تعلیمی بجٹ کو چار فیصد سے بڑ ھا کر چھو بیس فیصد کر دیا گیا ہے پرائمری اور سکینڈری ایجو کیشن کو بہتر بنا نے کی جامعہ منصوبہ بندی اور نقل کی روک تھام کے لےئے مر بوط اقدامات بروئے کار لا رہے ہیں تعلیم کے فروغ کے لےئے صو بے میں تین نئے میڈ یکل کا لجز اور یونیورسٹی تعمیر کی جارہی ہیں جو اس بات کا غماز ہے کہ صو بائی مخلوط حکومت تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لےئے کمٹمنٹ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صو بائی حکومت اپنے اداروں کو درست سمت میں لانے کے لےئے کوشاں ہیں یہ ہمارا اپنے عوام سے وعدہ ہے کہ اداروں کو درست کر ینگے تاکہ وہ بہتر نتایج دے سکیں انہوں نے کہا کہ اقتصا دی راہداری گوادر کے بغیر نامکمل ہے گوادر کی ترقی سے صو بہ اور یہ خطہ ہمہ گیر تبد یلیوں کا مرکز بنے گا صو بائی حکومت اپنے لوگوں کے حقوق کا ہر حوالے سے تحفظ کر یگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ با لخصو ص مکران سے تعلق رکھنے والے طلبہ اعلی تعلیمی اداروں میں جا نے کا خواہاں ہیں جس کے پیش نظر ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن یہاں کے طلبہ سے خصوصی رعایت کر ے اور یہاں کے تعلیمی اداروں کی مالی اور دیگر حوالے سے بھر پور معاونت کر ے تاکہ بلوچستان کے طلبہ بھی ملک کے اعلی جامعات میں تعلیم حاصل کر سکیں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے بلوچستان کے طلبہ کے ما لی اعانت کے لےئے انڈو منٹ فنڈ میں پانچ ارب روپے مختص کےئے ہیں تاکہ یہاں کے طلبہ کی تعلیمی ضرور یات پو را ہوسکیں انہوں نے کہا کہ ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن ہمارا سا تھ دے ہم یقین دلا تے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی بھی کو تائی نہیں کی جا ئے گی بلکہ ہما رے طلبہ ہر شعبہ میں بہتر نتائج دینگے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے وائس چانسلر کا یہاں کانفرنس کا انعقاد اچھی کاوش ہے جس کے دور س نتا ئج مر تب ہونگے۔ تقر یب سے ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن کے ایگز یکٹیو ڈائر یکٹر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی، انٹر یونیورسٹی کنشوریم کے چےئر مین ڈاکٹر ناصر علی اور تر بت یو نیورسٹی کے وائس چا نسلر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے بھی خطاب کیا اس موقع پر چیف سیکریڑی بلوچستان سیف اللہ چھٹہ بھی موجود تھے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ مالداری کے شعبے میں ترقی سے بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ہوگا۔ ملک کے لائیو سٹاک میں بلوچستان کا حصہ نصف کے قریب ہے بلوچستان کی اون کو جدید اور عالمی معیار کے مطابق اتارنے ، صاف کرنے اور پیکنگ کرنے سے صوبہ اور ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان نے بحیثیت مہمان خصوصی وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ ، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد، اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت اور دیگر متعلقہ اداروں کے زیر اہتمام منعقدہ ورلڈ وول ڈے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مالداری کے شعبہ مالداروں کی آمدنی میں اضافہ اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور دیہی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ او رمذکورہ شعبہ بالخصوص بے زمین محنت کش چھوٹے اور محروم کاشتکاروں اور خواتین کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ بلوچستان میں صنعتی شعبہ نہ ہونے کے باعث 80فیصدی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے لائیو سٹاک کے شعبے سے بلوچستان میں روایتی طو رپر وافر مقدار میں اون پیدا ہوتی ہے لیکن روایتی اور غیر ہنر مند افراد اون اتارنے کا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے 30سے 35فیصد اون ضائع ہونے کے علاوہ بھیڑ کی جلد بھی خراب ہوجاتی ہے اس کے علاوہ اون اتارنے کے بعد لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ گانٹھ کی صور ت میں اسٹور کرنے سے خراب ہوں گے وہ انہیں فوری طور پر فروخت کرتے ہیں اسی طرح 25فیصد اون گھریلو استعمال میں آتی ہے جبکہ باقی مقامی کاروباری لوگوں کو فروخت کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ اس روایتی طریقے سے ایک جانب اون ضائع ہوتی ہے تو دوسری جانب مالداروں سے اونے پونے داموں خریدلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مالداروں اور مویشی پالنے اور اون اتارنے کیلئے جدید طریقوں سے متعلق آگاہی اور بیداری پیدا کی جائے اس کے علاوہ صوبائی سطح پر خام اون کی صفائی درجہ بندی اور پیکنگ کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ معیاری اون برآمد کرکے زرمبادلہ حاصل کیا جائے اور صوبے کی معیشت کی بہتری اور مقامی افراد کیلئے نئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ مقامی سطح پر صنعتی یونٹس کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں صوبے کی اون کے بہتر استعمال کیلئے حکومت نے مستونگ جوتو اور ہرنائی میں وولن ملیں قائم کی تھیں یہ ملین بند ہوگئیں اور تاحال غیر فعال ہیں حکومت بلوچستان وفاقی حکومت کے تعاون سے ان ملوں کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے اون کی صنعت میں اصلاحات کا تہیہ کررکھا ہے تاہم فنی او رمالی مشکلات کے باعث ہم تنہا اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے اس ضمن میں بلوچستان کے عوام وفاقی حکومت اور بین الاقوامی اداروں سے فنی اور مالی تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے وول ڈے کی مناسبت سے فیصل آباد ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں تقریب کے انعقاد پر مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔ وفاقی وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ فیصل آباد ٹیکسٹائل یونیورسٹی، ایف اے او کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت اور اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے زراعت و خوراک بلوچستان میں مالداری کے شعبے اور قدرتی چراہ گاہوں کی بحالی پر صوبائی حکومت کو ریسرچ اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے مالی اور فنی تعاون کے ذریعے مدد دیں گے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان مالداری کے شعبے میں باقی صوبوں سے آگے ہے اور وہ پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے، تاہم وفاقی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کو اس ضمن میں آگے آنا ہوگا تاکہ قدرتی چراہ گاہوں کی بحالی اور مالداروں کو جدید تقاضوں کے مطابق بنیادی سہولتیں اور ضروری آگاہی دی جاسکے، انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو یقین دلایا کہ وفاقی حکومت ایف اے او اور آسٹریلین امدادی منصوبے کے تحت بلوچستان کو ہر ممکن مالی اور فنی امداد دینے میں اب بخل سے کام نہیں لے گی، وفاقی حکومت کے نیشنل فوڈ سیکورٹی اور زیروہنگر پروگرام Zero Hunger Programme کے ڈائریکٹر جنرل ملک ظہور احمد نے کہا کہ بلوچستان لائیو اسٹاک کے شعبے کے ساتھ ساتھ بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود پسماندہ رہ گیا ہے کیونکہ ماضی میں حکومتوں نے اس صوبے کو نظر انداز کیا تھا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس صوبے کے لائیو اسٹاک شعبے کو ترقی دیں تاکہ صوبہ کو خوشحال بنانے اور پاکستان کو خوراک کے حوالے سے محفوظ بنایا جا سکے، انہوں نے کہا کہ اب پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اور ان کا محکمہ وفاقی وزیر سکندر بوسن کی ہدایت پر اس شعبے کے لیے منصوبے بنا رہے ہیں اور انشاء اللہ جلد ہی صوبہ بلوچستان کو لائیو اسٹاک کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے وفاقی حکومت کی سطح پر کئی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ایف اے او کے نمائندے مسٹر پیٹرک ایونیز نے اپنے ادارے کی جانب سے بلوچستان میں زراعت مالداری اور ماہی گیری کے شعبے کی ترقی دینے کیلئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔