کوئٹہ: بلوچ ر ی پبلکن پارٹی اور بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے شہداء مرگاپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمانی سیاست کو دوام دینے کیلئے ریاستی آلہ کاروں نے شیر محمد، غلام محمد اور لالا منیر بلوچ کو شہید کیا لیکن ان کی نے سوچ آج بھی زندہ ہے سانحہ کے بعدمکران سمیت پورے بلوچستان میں بلند ہونے والے آگ کے شعلے اب تک بجنے کا نام نہیں لے رہے کیونکہ شہید اپنے خون سے تحریک کو مضبوط کرتے ہیں بلوچ ر ی پبلکن پارٹی اور بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کے مطابق بی آر پی اور بی آر ایس او کی جانب سے شہدائے مرگاپ کی یاد میں صوبہ بھر میں ریفرنسز کا انعقاد کیا گیا اور شداء کو انکی عظیم قربانیوں پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا شہداء مرگاپ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ شہدائے مرگاپ نے خود کو قربان کر کے تحریک کو ہمیشہ کے لیے تواناء رکھا شہید شیر محمد بلوچ نے اپنی سیاست کاآغاز 1985ء میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا اور 1986ء میں بی ایس او مند زون کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور تنظیم میں بہترین کارکردگی کی وجہ سے 1987ء میں مندزون کے صدر کے عہدے پر فائز رہے جو اس وقت بی ایس او کا فعال ترین زون تھاشہید بی ایس او کراچی زون کے جنرل سیکرٹری ، سینٹرل کمیٹی کے رکن اور جنر ل سیکرٹری سندھ کے عہدوں پر بھی فائز رہے اور بخوبی اپنے فرائض انجام دئیے طلباء سیاست کے بعد2005ء میں جمہوری وطن پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد براہمدغ بگٹی کی قیادت میں بلوچ ری پبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سینٹرل کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے 2008ء میں بی آر پی کے کونسل سیشن میں ڈپٹی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے شہید لالا منیر بلوچ نے بھی اپنی سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیااور 2005ء میں شہید غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بلوچ نیشنل موونٹ میں بطورِ نائب صدر رہے جبکہ شہید غلام محمد بلوچ نے اپنی سیاست کا آغا زبھی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا اور 1988ء میں بی ایس او کے مر کزی جنرل سیکرٹری اور 1990ء سے 1994ء تک دو بار بی ایس او کے چیئر مین رہے اور طلباء سیاست کے بعد بی این ایم سے منسلک رہے ،بی این ایم کے کونسل سیشن میں صدر منتخب ہوئے جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ میں بطورِجنرل سیکرٹری اور آرگنائزر بھی رہ چکے تھے پہلی مرتبہ شہید شیر محمد بلوچ اور شہید غلام محمد بلوچ کو 3دسمبر 2006ء کولیاری کے علاقے کلری میں ایک عوامی اجتماع کے دوران گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد دونوں رہنماؤں کو لاپتہ کیا گیا جنہیں 19ستمبر 2007ء کوسبی پولیس نے گرفتاری ظاہر کی جبکہ دونوں رہنماء بعد میں ضمانت پر رہا ہوگئے اور دورانِ پیشی عدالت میں 3اپریل 2009ء کو کچکول علی ایڈووکیٹ کے دفتر سے مسلح افراد نے شہید شیر محمد بلوچ، شہید غلام محمد بلوچ اور شہید لالا منیر بلوچ کو اغواء کر لیا جنہیں شدید تشدد کے بعد 9اپریل کو تربت سے 15کلو میٹر دور مرگاپ کے مقام پر شہید کر کے پھینک دیا گیا بیان میں کہا گیا ہے کہ شہدائے مرگاپ ریاست اور اس کے باج گزار جما عتوں کے لیے موت کا باعث بن چکے تھے پارلیمانی جماعتوں کاپورے بلوچستان میں گراف گرتا جسے دیکھ کر ریاستی آلہ کاروں سے رہا نہیں گیا اس لیے تینوں رہنماؤں کو شدید جسمانی اوذہنی تشدد کے بعد شہید کیا گیا لیکن ان کی سوچ کو ریاست ختم نہ کرسکی ان کی شہادت کے بعدمکران سمیت پورے بلوچستان میں آگ کے شعلے بلند ہوئے جواب تک بجنے کا نام نہیں لے رہے کیونکہ شہید اپنے خون سے تحریک کو مضبوط کرتے ہیں آج اگر بلوچ قومی تحریک اس مقام پر ہے تو یہ عقوبت خانوں میں اذیتیں سہنے والے نوجوانوں اور جان قربان کرنے والے نوجوانوں کی بدولت ہے جنہوں نے اپنی جان تحریک کے لیے قربانی دی شہدائے مرگاپ جسمانی طور پر ہم سے جُدا ضرور ہیں لیکن انکی سوچ ، فکر و فلسفہ ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی اس کے علاوہ ٹویٹر پر بلوچ سیاسی کارکنوں ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور بی آر پی، بی آر ایس او کے کارکنوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ٹویٹر پر جاری مہم کو کامیاب کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا جس پر ہم تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں بی آر پی اور بی آر ایس او کی جانب سے تاجر برادری اور دیگر کاروباری حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا گیا جنہوں نے 9اپریل کے ہڑتال کو کامیاب بنا کر بلوچ متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی کی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔