کراچی: پاکستانی قانون سازوں کی جانب سے یمن کے بحران میں پاکستانی حکومت سے غیرجانبدار رہنے کے مطالبے پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی جانب سے ایک سخت ردّعمل سامنے آیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے ریاستی وزیر ڈاکٹر انور محمود گرگاش نے کہا ہے کہ ’’پاکستان اور ترکی کے مبہم اور متضاد مؤقف نے ایک یقینی ثبوت پیش کردیا ہے کہ لیبیا سے یمن تک عرب سلامتی کی ذمہ داری عرب ممالک کے سوا کسی کی نہیں ہے۔‘‘
یو اے ای کے ایک معروف اخبار خلیج ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر انور محمود گرگاش نے پاکستان کو خبردار کیا کہ پاکستان کو اپنے ’’مبہم مؤقف‘‘ کی ’’بھاری قیمت‘‘ ادا کرنی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو خلیج کی چھ قومی عرب تعاون کونسل کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کے حق میں واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر انور محمود گرگاش نے پاکستان کی قرارداد کو خلیج کے بجائے ایران کا ساتھ دینے کی علامت قرار دیا۔
انہوں نے کہا ’’لگتا ہے کہ اسلام آباد اور انقرہ کے لیے تہران خلیجی ممالک سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا’’اگرچہ ہمارے اقتصادی اور سرمایہ کاری کے اثاثے ناگزیر ہیں، تاہم اس نازک موقع پر سیاسی حمایت لاپتہ ہے۔‘‘
یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے جمعہ کا ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی، جس میں سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے دفاع کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
لیکن چونکہ ان مقامات کو جاری تنازعے سے اب تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس لیے اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور یمن کی لڑائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
مزید یہ کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے حکومت پاکستان کی جانب سے اس بحران کا ایک پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت کی نشاندہی کی تھی۔
اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ’’پارلیمنٹ کی خواہش ہے کہ پاکستان یمن کے تصادم میں اپنی غیرجانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھ تاکہ اس بحران کے خاتمے کے لیے ایک فعال سفارتی کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔‘‘
واضح رہے کہ یمن کے دارالحکومت پر قبضے اور صدر عبدالرب المنصور ہادی کے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہونے کے بعد سعودی قیادت میں فوجی اتحاد نے ان کی حمایت میں حوثی باغیوں کے خلاف 26 مارچ کو فضائی حملے شروع کیے تھے۔
‘پاکستان کو مبہم مؤقف کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی’
وقتِ اشاعت : April 11 – 2015