کوئٹہ: بی ایس او آزاد کے مر کزی ترجمان نے تربت میں لاپتہ بلوچ فرزندان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور انہیں مزاحمت کار قرار دینے کے فورسز کی بیانات کو غلط بیانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فورسز اپنے کردہ گناہوں کو چھپانے و رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے دورغ گوئی کا سہارا لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز تربت میں پھینکنے والی پانچ لاشوں میں سے ایک بی ایس او آزاد کے ممبر اور ’’ڈائنامک انگلش لیگوئیج ٹیچنگ اکیڈمی‘‘ ڈیلٹا سنٹر کے ٹیچر سنگت رسول جان بلوچ کی ہے ۔ جسے 6جنوری 2014کو تربت ڈیلٹا کالج کی ہاسٹل پر چھاپے کے دوران اہلکاروں نے اغوا ء کیا تھا۔ رسول جان بلوچ خود عطاء شاد ڈگری کالج میں بی اے کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی پڑھا رہے تھے جنہیں فورسز نے اغواء کیا تھا ۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ سنگت رسول جان بلوچ کی تنظیمی پلیٹ فارم پر قومی تحریک کے لئے کردار کو تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے قومی آزادی و نوجوانوں کی علمی تربیت کے لئے گران بہا خدمات انجام دئیے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مالک کی تعلیم دشمنی و بلوچ سیاسی نوجوانوں کو آزادی کی سیاست کے راستے ہٹانے کی پالیسیوں کے تحت سنگت رسول جان بلوچ کو فورسز نے کالج کے ہاسٹل سے درجنوں لوگوں کے سامنے سے اغواء کیا۔۔ ترجمان نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ہم اس خدشے کا اظہار کرچکے تھے کہ فورسز لاپتہ بلوچ طلباء و مختلف شعبوں سے لاپتہ کیے گئے فرزندان کی لاشیں پھینکیں گے۔ تربت میں لاپتہ ماسٹر اصغر ، یحیٰ فضل، دین محمد بگٹی اور اسٹوڈنٹ لیڈر رسول جان بلوچ کی لاشیں جبکہ چند دنوں پہلے نوشکی سے لاپتہ بلوچ فرزندان کی لاشیں پھینکنے کی کاروائیاں انہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔