|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2015

لندن : بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان خاص طور پر مکران میں فورسز نے اپنے سر گرمیوں میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہوئے ، گذشتہ طویل عرصے سے جاری آپریشنوں کے تسلسل میں مزید شدت پیدا کردی ہے ۔ بلوچستان کے علاقے مکران میں آپریشنوں کے شدت کے پیچھے اصل محرک ریاستچین معاہدات ہیں ، پاکستان گوادر بندر گاہ سمیت مختلف بلوچ وسائل چین کے حوالے کرنے کے بعد اب چین کے معاشی و دفاعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان وسائل کے لوٹ مار کیلئے چین کیلئے ایک پر امن و محفوظ فضاء قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ چین آسانی سے گوادر تا کاشغر روڈ کو تعمیر کرکے خود کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے جوڑ ے اور اپنے معاشی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم اسٹرٹیجک پوزیشن پر کنٹرول حاصل کرکے خطے میں ایک فیصلہ کن برتری حاصل کرلے ۔ چین کے ان توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں ریاست اسکی مکمل معاونت کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی کا مرتکب ہو کر چین کیلئے محفوظ ٹھکانے و راستے بنا رہا ہے جس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بلوچ قوم دوست قوتیں ہیں ۔ ریاست آئے روز آپریشن کرکے یہاں کے آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ جیسے جیسے پاکستان اور چین کے معاہدات حتمی شکل اختیار کررہے ہیں ویسے ویسے ریاست کے جارحیت و قتل و غارت میں اضافہ ہورہا ہے اور حال ہی میں پاکستانی فوج کی طرف سے مکران میں گرینڈ آپریشن کا اعلان اسی سلسلے کی ایک خونریز کڑی ہے ۔ بلوچ قوم دوست رہنما نے مزید کہا ہے کہ ریاست ان خونریز آپریشنوں کے آڑ میں جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے بلوچوں کو شہید کرکے انکی لاشیں متاثرہ علاقوں میں پھینک کر انہیں مزاحمت کار ظاھر کرکے دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے ۔ریاست ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان جبری طور پر اغواء کرچکا ہے ، خفیہ اداروں کے تحویل میں ان سیاسی کارکنان کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر ابتک 1600 سے زائد کو شہید کرکے انکی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں جسے پوری دنیا پاکستان کے بدنام زمانہ ’’ مارو اور پھینکو ‘‘ پالیسی کے نام سے جانتی ہے ، اب پاکستان انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور مہذب اقوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ان لاپتہ بلوچوں کو دوران آپریشن شہید کرکے میڈیا میں انہیں مزاحمت کار اور انکی شہادت کو مقابلہ قرار دیکر اپنے انسانی حقوق کے ان جرائم پر پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے ، حال ہی میں بلوچستان کے علاقے گیبن میں آپریشن کرکے عام بلوچ شہریوں کو نشانہ بنانے کے بعد وہاں لاپتہ افراد کی لاشیں پھینک کر انہیں میڈیا میں مزاحمت کار ظاھر کرتا رہا حالانکہ ان میں سے چند افراد کی بعد ازاں شناخت لاپتہ بلوچوں کی حیثیت سے ہوئی جن میں سے کچھ دو دو سال پہلے اغواء ہوئے تھے ، اس سے پہلے مچھ، دشت اور اسی سال ڈیر بگٹی ، تمپ اوردیگر علاقوں میں بھی اسی طرح کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں ۔ حیربیار مری نے مزید کہا ہے کہ ریاست کا بنیاد جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ، پاکستان ایک طرف امریکہ سمیت دوسرے مغربی اقوام سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر اربوں ڈالر لیتا رہا ہے اور دوسری طرف اسکی فوج اور خفیہ اداے ان دہشتگردوں کو پیداکرکے انکی پرورش کرتے ہوئے انھیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں اور پھر اپنے ہی پالے ہوئے دہشتگردوں کو دوبارہ مغربی اقوام کے خلاف ایک خوف و دہشت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ریاست مزید پیسے بٹورتا ہے ، یہی پاکستان سعودی عرب کے دوستی کا دم بھرتے ہوئے ہمیشہ سے سعودی عرب سے فائدہ حاصل کرتا رہا ہے اور اب یمن کے بابت اسکا پوزیشن واضح ہے کہ وہ محض ارد گرد اپنے لیئے بہتر قیمت تلاش کررہا ہے ، یہی ریاست ہر وقت بھارت و افغانستان سے دوستی قائم کرنے کا دم بھرتا ہے لیکن دوسری طرف اپنے ہمسایوں کے پِیٹ میں چھرا گھونپ کر اپنے پیدا کردہ دہشت گردوں کو مجاہدین کا نام دیکر ان ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی اور تباہی کا موجب بنتا ہے ،پاکستانی فوج پنجاب کے مخصوص مفادات کے تحت نا صرف بلوچ ، سندھی اور پختون قوم کو لوٹ رہا ہے بلکہ انہی مفادات کے تحت ہی پوری دنیا کو ایک دھوکہ میں رکھا ہوا ہے ۔اب ریاست بلوچستان کو چین کے حوالے کرکے ایک بار پھر پنجاب کے قبضہ کو مضبوط اور مفادات کا تحفظ چاہتا ہے ، دونوں کے توسیع پسندانہ عزائم اور مفادات علاقائی حوالے سے اس خطے کے باقی اقوام اور ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں ایک بات پاکستان کے تاریخ سے ظاہر ہے کہ اسکے تعلقات ،ہمیشہ پنجاب کے مفادات اور پیسے کے گرد گھومتے ہیں۔ریاست کے اس مفادپرستانہ اور دھوکہ دہی کے تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ غیر فطری طور پر تشکیل شدہ ریاست ایک غیر ذمہ دار اور نا قابلِ بھروسہ ریاست ہے کسی بھی ملک اور قوم کا ریاست سے تعلقات کا حتمی انجام دھوکے پر ہی منتج ہونگے۔آج ریاست جس طرح چین کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے بلوچ وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کا بازار گرم رکھا ہوا ہے اور اپنے لرزہ انگیز جاہ طلبی کی خاطر بلوچستان کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسی کے کڑی کے طور پر مکران میں فوجی آپریشنوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس کے نتائج نا صرف بلوچ بلکہ خطے کے دوسرے اقوام پر انتہائی منفی مرتب ہونگے ، چین پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ بلوچ قوم چین و ریاست کے ان استحصالی اور توسیع پسندانہ عزائم کو ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔