|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں ڈاکٹر امیر بخش بلوچ کو دن دیہاڑے اغواء کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکمران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بلوچستان میں اغواء برائے تاوان کے واقعات کا خاتمہ کر دیاگیا ہے حالات بہتر ہو چکے ہیں لیکن دیکھا جائے تو تمام سماجی معاملات بدتری اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں کوئی بھی طبقہ فکر محفوظ نہیں نہ ہی بلوچستان کے معاملات میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کوئٹہ شہر میں طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر کا اغواء اس بات کی غمازی ہے کہ حکمران عوام کے مسائل کے حل پر توجہ نہیں دے رہی حکومتی امور چلانے کا طریقہ کار دیکھا جائے تو یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے حکومت ان معاملات پر زیادہ توجہ دیتی ہے جہاں سے انہیں ذاتی فوائد حاصل ہو سکیں مخدوش امن و امان کی صورتحال کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا ہے اس سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ حکمرانوں کے عوام سے مضبوط رشتہ نہ ہونے کے باعث عوام کے احساس ، جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی مثبت اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ وزراء اور ایم پی اے ایز سرکاری ملازمین کو اپنے ذاتی ملازم سمجھ بیٹھے ہیں گزشتہ دنوں سیکرٹریٹ کے مین گیٹ کے سامنے بلوچ ملازم کے ساتھ ہتک آمیز رویہ قابل مذمت ہے جب حکمران ہی قوانین ، قواعد و ضوابط کے پابند نہ رہیں قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ بیٹھیں تو وہاں پر منفی رجحانات آگے بڑھتے ہیں حکومت اپنی تمام تر صلاحیتیں کرپشن ، لوٹ مار پر مرکوز کر چکی ہے کوئٹہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں رہی جو حکمرانوں نے اپنے نام پر الاٹ نہ کرا دی ہو اور ایسے الاٹمنٹس کئے گئے جہاں پر کوڑیوں کے داموں اراضیات کی الاٹمنٹ کرائی گئی بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہ کیا جس سے عوام کو ریلیف ملے مگر یہاں ریلیف تو درکنار عوام معاشی تنگ دستی ، بدحالی ، کسمپرسی ، بے روزگاری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم کے این ٹی ایس ٹیسٹ اور اس کے بعد بھی میرٹ کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی تو سخت احتجاج کریں گے بلوچستان یونیورسٹی میں بھی جونیئر لیکچرار کو ترقی دے سینئر راتوں رات سینئر تک ترقی دی گئی یو ایس ایڈ کی جانب سے بلوچ ریڈنگ پروجیکٹ کو ختم کروانا ، 700لیکچراز کی آسامیوں کی منسوخی ، بلوچستان کے جامعات میں بلوچ اساتذہ کو دیوار سے لگا کر لسانی بنیادوں پر تعیناتی واضح ثبوت ہے اگر اب محکمہ تعلیم کے نشستوں پر حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت کی گئی تو بی این پی خاموش نہیں رہے گی بلکہ موجودہ حکومت کے عزم ، ناروا سلوک ، غیر قانونی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرے گی میرٹ کے دعویداروں کے دور میں پبلک سروس کمیشن کے جیسے خود مختیار ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے تمام غیر قانونی ، غیر جمہوری ، متعصبانہ سوچ کے بعد بھی حکمران کہتے نہیں تھکتے کہ پڑھا لکھا بلوچستان کا مشن ہے ایسی باتیں وہاں زیب نہیں دیتیں جہاں تعلیم کے ساتھ ناانصافیاں کی جائیں وہاں حکمران ایسی باتیں کرتے اچھے نہیں لگے بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ڈاکٹر امیر بخش بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کراتے ہوئے اس طبقہ فکر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے –