|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2015

جینیوا:  اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے انسانی حقوق کے معروف کارکن سبین محمود کی کراچی میں بے رحمانہ قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کہ اسے بلوچ حقوق پر اواز اٹھانے کی پاداش میں ریاستی اداروں نے قتل کیا. اس سے پہلے لمز یونیورسٹی میں بلوچستان کے حوالے باالخصوص ریاست کے ہاتھوں جبری لاپتہ کئے ہوئے بلوچوں کے موضوع پر ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے اداروں نے مداخلت کرکے زبردستی منسوخ کرایا لیکن سبین محمود نے خوف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بلوچستان پر کراچی میں کامیاب نشست منعقد کی تھی، جس بنا پر انہیں نشانہ بنا کر قتل کیا. بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی اپریشنوں، بلوچوں کے گھروں کی مسماری، نہتے عورتوں اور بچوں کو شہید کرنا، لوگوں کو اغوا کرکے جعلی مقابلوں میں مارنا اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا روز کا معمول بن چکا ہے لیکن سبین محمود کے قتل کے بعد ریاست اسٹیبلشمنٹ کے بلوچستان متعلق گھناونے عزائم واضح ہوچکے ہیں کہ اب جو کوئی بھی ہو چاہے وہ بلوچ ہو یا غیر بلوچ، بلوچوں پر مظالم کی بات کرتا ہے وہ اسی طرح مار دیا جائے گا۔مہران بلوچ نے کہا کہ ریاست کی یہ بھول ہے کہ وہ طاقت کے بے دریغ استعمال، ظلم وجبر اور قتل و غارت سے بلوچ قومی تحریک آذادی کو دبانے میں کامیاب ہوگا، ہم ہر سطح اور فورم پہ ریاست کی بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے رہیں گے. انہوں نے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں ادارے بلوچستان متعلق نشست منعقد کرانے کی پاداش میں ایک معروف انسانی حقوق کے کارکن کو باآسانی سرعام قتل کردیتے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان جو کہ اسے ایک نو گو ایریا بنادیا گیا ہے جہاں نہ میڈیا ہے اور نہ ہی علاقائی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی دسترس وہاں پر ریاستی ادارے لوگوں پر کیا کیا ظلم ڈھاتے ہونگے۔مہران بلوچ نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے تمام اداروں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست کی انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں کی سختی سے نوٹس لیں ۔