|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت بلوچوں کا استحصالی پالیسیوں کا نشانہ بنانے کا عزم کر چکی ہے صوبائی حکومت بلوچ عوام کو دیوار سے لگانے اور اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے ہزار گنجی بس اڈوں کی منتقلی میں جلدبازی کا مقصد کمیشن کا حصول اور اتحادیوں کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ٹرانسپوٹرز اور مسافروں کے مسائل کا حل ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے حکومت فوری طور پر ٹرانسپوٹرز سے مذاکرات اور مسافروں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں آمرانہ پالیسیوں کو ترک کر کے حکومت عوام کے امنگوں اور خواہشات کو مد نظر رکھ کر فیصلے کریں اس کے برعکس حکمرانوں کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ فطری عمل ہو گا صوبائی حکومت و اتحادی ترقی و خوشحالی کی باتیں تو کر رہی ہے لیکن عملا بلوچستان میں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ کھڑی کر رکھی ہیں جہاں حکمرانوں کی ذاتی و گروہی مفادات کی تکمیل نہیں ہوتی وہاں سرکاری مشینری کا استعمال کرتے ہیں کسانوں کی سہولت کیلئے بلیلی میں بنائی جانے والی مارکیٹ کا کام گزشتہ دو سالوں سے بند ہے جس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ صوبائی حکومت و اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بلاوجہ غیر قانونی طریقے سے فارمر مارکیٹ کے کام کو بند کروا دیا ہے جو عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے اجلت میں ٹرانسپوٹرز کی مرضی و منشاء کے برخلاف مطالبات نہ ماننے اور بس اڈوں کو ہزار گنجی منتقل کرنا وہاں عوام اور ٹرانسپوٹرز کو سہولیات مہیا نہ کرنا خصوصا پک اینڈ ڈراپ کیلئے کوئی بندوبست نہیں اگر بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے مسافر کوئٹہ پہنچ جائیں گے تو وہاں سے اپنے گھروں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو عوام دشمن پالیسی کے سوا کچھ نہیں یہ تلخ حقیقت ہے جسے صوبائی حکومت کے ارباب و اختیار جھٹلا رہے ہیں ہزار گنجی میں ٹرانسپوٹرز کو سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے بلوچ علاقوں سے آنے والے مسافروں کو شہر تک پہنچنے کیلئے پک اینڈ ڈراپ کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے حکومت عوام دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے بلوچ اکثریتی علاقوں سے آنے والے مسافر ہزار گنجی اڈے میں پہنچ بھی جائیں تو کوئٹہ شہر تک آنے کیلئے انہیں اتنا ہی کرایہ دینا پڑے گا جتنا وہاں سے کوئٹہ پہنچنے کیلئے دیا گیا مغرب کے بعد عوامی ٹرانسپورٹز انہیں میسر نہیں ہو گی ہزار گنجی میں رہائش کی بھی کوئی سہولت نہیں یہ عوام کا استحصال نہیں تو کیا ہے موجودہ صوبائی حکومت عوام کے معاشی استحصال سے بھی گریزاں نہیں اقتدار نے حکمرانوں کو اتنا مفلوج کر دیا ہے کہ وہ عوام کے احساسات جذبات سے کوئی سروکار نہیں بلوچستان کے ٹرانسپوٹرز کے ساتھ ان کا رویہ آمرانہ ہے اور دلیل اور منطق کی بات سننے کے بجائے ہٹ دھرمی پر حکمران اتر آئے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ٹرانسپورٹرز جو سراپا احتجاج ہیں اپنے جائز ڈیمانڈز کے حوالے سے جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کے باوجود صوبائی حکومت کے رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار پر براجمان حکمران عوامی خواہشات اور ضروریات کو روند رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کا تعلق عوام سے نہیں حکمرانوں کا رویہ آمرانہ ہو چکا ہے اس میں کیا مسئلہ ہے کہ تمام ٹرانسپوٹرز کو یکساں سہولیات فراہم کی جائیں ٹرانسپوٹرز کا عدم تحفظ کے حوالے سے جو موقف ہے اسے ہمدردانہ طریقے سے سنا جائے ہزار گنجی بس اڈے میں ٹرانسپوٹرز کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کو حل کرنے کے بعد بس اڈے کو منتقل کیا جائے تو وہ بہتر ہو گا لیکن ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اجلت میں بس اڈے کی منتقلی عوام کیلئے مسائل کا سبب بنے گی جو کسی بھی ذی شعور انسان کو قبول نہیں بلوچ علاقے سے آنے والے غریب عوام جن کی اکثریت ویگن ‘ بسوں میں سفر کرنے والے ہیں کوئٹہ سے بلوچ علاقوں کی جانب جانے سے جہاں انہیں ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں معاشی طور پر مسائل سے دوچار ہونگے بلوچستان حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے فوری طور پر بلوچستان کے ٹرانسپورٹرز کے تحفظات کو دور کر کے مسائل کو حل کیا جائے جلدی بازی میں فیصلے اور ضد اور انا کو مسئلہ بنانے کے بجائے ٹرانسپورٹرز کے جو بھی جائز مطالبات ہیں انہیں تسلیم کیا جائے تاکہ ہڑتال کے عوام کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہے ہیں انہیں بھی نجات مل سکے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے اس مسئلے پر صوبائی حکومت و اتحادی انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں عوام پریشانی کے عالم میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں –