کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سبین محمود کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لمز میں بلوچ حقوق کے بارے میں کانفرنس کو دھمکی کے بعد منسوخ کرنا اور بعد میں سبین محمود کا قتل اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں اور انہیں پاکستان کسی صورت زیر بحث لانے ، میڈیا ، دوسرے ملکوں یا انسانی حقوق کے اداروں تک تک پہنچانے والی کسی بھی آواز کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتا ہے۔ ان دونوں پروگراموں میں ماما قدیر بلوچ ، فرزانہ مجید بلوچ اور معزز استاد محمد علی ٹالپور کی شرکت کے بعد ریا ست کا اس طرح کا ردِ عمل سول سوسائٹی و انسانی حقوق کے کارکنوں کو ایک دھمکی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں بیس ہزار سے زائد بلوچ قابض ریاست کی زندانوں میں اذیتیں جھیل رہی ہیں ، جبکہ دوہزار سے زائد تشدد کے دوران شہید کرکے مسخ شدہ لاش کی صورت میں بلوچستان کی سڑکوں ، جنگلوں و میدانوں میں پھینکی گئی ہیں ۔ خضدار توتک کی اجتماعی قبروں سے 169 لاشوں کی برآمدگی جیسے غیر انسانی اعمال کو چھپانے کیلئے بلوچستان میں ہر قسم کی میڈیا و صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کئی صحافیوں کو بلوچستان کے بارے میں لکھنے یا بات کرنے کی سزا کے طور پر ملک چھوڑنے یا قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔کئی بلوچ صحافی اسی پاداش میں قتل کئے جا چکے ہیں ۔ غیر ملکی صحافیوں و ہر قسم کی انسانی حقوق کے اداروں پر بلوچستان میں داخلے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ ترجمان نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے سبین محمود کو بلوچستان بارے میں پروگرام کرنے پر قتل اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لینے کی اپیل کی۔