|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2015

کوئٹہ : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کو خسارے کا صوبہ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ، بلوچستان کا قومی خزانے میں بڑا حصہ ہے صرف گڈانی شپ بریکنگ سے سالانہ 14ارب روپے قومی خزانے میں جاتے ہیں بدقسمتی سے ہم چیزوں کا حساب کتاب نہیں رکھتے لیکن اب ہمیں ان کا حساب رکھنا ہوگا بلوچستان کی گیس سے فرٹیلائزر کی صنعت شروع ہوئی اور اس گیس ہی سے ملک نے صنعتی ترقی کی لیکن افسوس ہے کہ سوئی سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے قدرتی گیس کی نعمت سے ابھی تک محروم ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم مئی کی مناسبت سے منعقدہ لیبر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام محکمہ محنت و افرادی قوت اور آئی ایل او کے اشتراک سے کیا گیا تھا، کانفرنس میں دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ٹریڈ یونین کے عہدیداروں، مزدوروں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق اور صوبائی محکموں کے سیکریٹری بھی اس موقع پر موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر بلوچستان کو ترقی دینا ہے تو ہم سب کو اپنے رویوں میں بہتری لانی ہوگی اگر ہم خود ہی اپنے استاد کو اسکول اور ڈاکٹر کو اسپتال نہیں لاسکتے تو ہمیں پھر کسی سے شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے ، اسپتال گندے ہیں سوئیپر صفائی نہیں کرتا اور اگر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یونین ہڑتال پر اتر آتی ہے ،وزیراعلیٰ نے کہا کہ مزدورہوں یاافسر سب کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض کو بھی پہچاننا ہوگا ، حقوق کے لیے جدوجہد اچھی بات ہے لیکن فرائض کی ادائیگی بھی ضروری ہے تبھی ہم ترقی کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں جب ہم حقوق اور فرائض میں توازن قائم کریں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں جہاں ہمیشہ آمروں کے خلاف جدوجہد کی گئی ہے وہاں بیگناہ مزدوروں کو مارنا انتہائی قابل مذمت اور سنگین واقعہ ہے اور ہم آج کے دن شہید مزدوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں سلام پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مزدور اور محنت کش معاشر ے کا انتہائی اہم طبقہ ہیں جو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔شکاگو کے مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آج انہیں اپنے محنت کشوں کے ساتھ یہ دن مناتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہورہی ہے کیونکہ ہم نے شروع دن سے مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد اور کوششیں کیں،وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے ایسی لیبر پالیسی دینگے جس میں ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے اور ہمیں کل کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ مزدور یونینوں کی مشاورت سے جس لیبر پالیسی کے خدوخال تیار کیے گئے ہیں اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بعد حتمی شکل دی جائے گی ، اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے ڈاکٹر قیصر بنگالی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیاجو تین مہینوں میں لیبر پالیسی کو حتمی شکل دے گی ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بلوچستان میں ایسی بہترین لیبر پالیسی دیں گے جس کی دیگر صوبے بھی تقلید کریں۔انہوں نے کہا کہ وہ آج وزیراعلیٰ ہیں اور کل نہیں ہوں گے لیکن وہ عوامی مفاد کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کو بہت سے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے تاہم بہتری کے لیے ہماری کوششیں جاری ہیں بلوچستان کے وسائل کی ترقی اور انہیں یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے لانے کے حوالے سے جامع حکمت عملی مرتب کی گئی ہے اور سرمایہ کاری کے حصول کو ممکن بنایا جارہا ہے جس کے لیے کوئٹہ میں سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ وہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں جہاں ان کا سرمایہ محفوظ ہو جس سے ان کو اور علاقے کو بھی فائدہ پہنچے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ لسبیلہ اور حب انڈسٹریل زون کی ٹریڈ یونینوں کی جائز مطالبات پر عمل درآمد کیا جارہا ہے وہاں کے صنعت کاروں سے کوئی جگاٹیکس نہیں لیتا لیکن ہمارا صنعت کاروں سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ صنعتوں میں مقامی افراد کو زیادہ سے زیادہ روزگار دیا جائے تاکہ صوبے سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے ،وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت صوبے کے زمینداروں اور کاشت کاروں کی سہولت کے لیے زرعی ٹیوب ویلوں پر سالانہ 12ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے اور بلوچستان کے محدود بجٹ سے اتنی خطیر رقم کا نکالنا آسان نہیں ہوتا ، ریکوڈک کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریکوڈک تو دور کی بات میں بلوچستان کا ایک پتھر بھی بیچنے کا سوچ نہیں سکتا ، ماضی میں اس منصوبے کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم بتانہیں سکتے کیونکہ یہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اب تک کیس پر ہونے والی پیش رفت سے میڈیا اور عوام کو جلد تفصیلی بریفنگ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ریکوڈک منصوبہ دوبارہ شروع ہو تاکہ عوام ان قدرتی وسائل سے استفادہ کر سکے ، انہوں نے کہا کہ چاغی میں سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے خزانے موجود ہیں لیکن وہاں پینے کا پانی تک مہیا نہیں اسی طرح سوئی سے 1956ء میں گیس دریافت ہوئی لیکن وہ علاقہ بھی ابھی تک بنیادی سہولیات سے محروم ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بلوچستان کے وسائل اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایمانداری سے خرچ کر رہی ہے ۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر یقین دلایا کہ کانفرنس میں لیبر ٹریڈ یونین کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو حل کیا جائے گا اور انہیں سی سی آئی میں بھی لے جایا جائے گا تاکہ آئی ایل او میں بلوچستان کو بھی نمائندگی مل سکے ۔لیبر کانفرنس سے چیف منسٹر پالیسی ریفارم یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر قیصر بنگالی ، کوآرڈینٹر ڈاکٹر اسحاق بلوچ ، آئی ایل او کے نمائندے صغیر بخاری ، آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر سلطان اچکزئی اور لسبیلہ چیمبر آف کامرس کے اسماعیل ستار سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔