اسلام آباد : نیب کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (ای بی ایم) نے محکمہ صحت بلوچستان کے سابق سیکرٹری سمیت اعلیٰ حکام‘ سابق وزیر خزانہ بلوچستان کے خلاف ژوب میر علی خیل منصوبے کی انتظامی ایجنسی کی غیر قانونی تبدیلی‘ حیدرآباد ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے مختلف اعلیٰ افسران کے خلاف 7 ایکڑ اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ‘ غیر قانونی اثاثے بنانے پر چیف انجینئر سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ پشاور کے خلاف تحقیقات کی منظوری دے دی ہے جبکہ تعمیراتی کمپنی کی جانب سے رضاکارانہ طور پر چار کروڑ چالیس لاکھ روپے کی واپسی اور شہباز الدین اور دیگر کی جانب سے 10 کروڑ 94 لاکھ 80 ہزار روپے کی پلی بارگین کی منظوری بھی دیدی۔ قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کی صدارت میں نیب ہیڈکوارٹر میں منگل کو منعقد ہوا جس میں ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں پیش کئے گئے کئی مقدمات کے فیصلے کئے گئے۔ نیب کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ نے سابق سیکرٹری صحت بلوچستان ڈاکٹر شفیع محمد زہری، سابق ایڈیشنل سیکرٹری صحت ڈاکٹر منظور حسین، سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر الہی بخش، ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالغفار کیانی اور کنٹریکٹر ڈاکٹراختر حمید کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی۔ اس مقدمہ محکمہ صحت بلوچستان کے حکام نے اپنے کنٹریکٹر کو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کنٹریکٹر کو 60 لاکھ 51 ہزار کے ٹیکسوں سے بچایا جبکہ 38 لاکھ 50 ہزار کی بنک گارنٹی طے شدہ مدت سے پہلے جاری کردی۔ اس عمل سے قومی خزانے کو مجموعی طورپر 99 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ یہ ٹھیکہ بولان میڈیکل کالج و ہسپتال کوئٹہ کیلئے سی ٹی سکین مشین کی خریداری کا تھا۔ اس کے علاوہ ای بی ایم بلوچستان سے سابق وزیر خزانہ و رکن صوبائی اسمبلی سعادت انور، ایڈیشنل چیف سیکرٹری و سابق چیئرمین بی ڈی اے علی ظہیر اور ڈی جی منظور احمد کے خلاف ژوب میر علی خیل منصوبے سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ سے بی ڈی اے کوئٹہ کو غیرقانونی تبدیلی کے الزامات کے تین کیسوں کی تحقیقات کی منظوری بھی دی گئی ہے جبکہ کنٹریکٹ دینے میں شفافیت نہیں تھی اور پراجیکٹ کی لاگت بھی غیرقانونی طور پر بڑھائی گئی، جس کنٹریکٹر کوٹھیکہ دیا گیا اس کی اہلیت بھی شفاف نہیں تھی جس سے قومی خزانہ کوبڑا نقصان ہوا اس کے علاوہ جامشورو میں سروے نمبر 54 میں سات ایکڑ سے زائد کی اراضی غیرقانونی طورپر الاٹ کرنے پر قادر بخش، گڈا حسین ابڑو، امتیاز سولنگی، عبدالسبان میمن، سالک نوکریج اور غلام علی شاہ کے خلاف تحقیقات کی منظوری بھی دی گئی۔ اس عمل سے قومی خزانے کو 35 سے 40 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ چیف انجینئر سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ پشاور کے چیف انجینئر زرد علی خان کے خلاف اپنی آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام کی تحقیقات کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے بینک الحبیب لمیٹڈ شہداد کورٹ برانچ سے 7 کروڑ 63 لاکھ روپے سے زائد کی قرض نادہندگی کے الزام میں محمد یوسف اور احمد ہمایوں شیخ کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ محمد یوسف کی شناخت کے فیصل اقبال کی جانب سے بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے غلط استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے اس اقدام کو مجرمانہ قرار دیا۔ ایگزیکٹو بورڈ نے کنسٹرکشن کمپنی ایم ایس ایم این کی جانب سے رضاکارانہ طور پر چار کروڑ چالیس لاکھ روپے کی واپسی کی درخواست کی منظوری دیدی جبکہ شہباز الدین‘ طارق شہباز اور خالد شہزاد کی جانب سے دس کروڑ 94 لاکھ 80 ہزار روپے کی پلی بارگین کی درخواست کی بھی منظوری دی۔ ایگزیکٹو بورڈ نے لٹریسی و نان فارمل بیسک ایجوکیشن کوئٹہ‘ بلوچستان کے ڈائریکٹر عرفان اللہ خان اور ڈائریکٹر ریمومر اینڈ کمپنی پاکستان خضر یوسف دادا اور ظہیر عباس لنڈ بلوچ کے خلاف شہادت کی کمی کی وجہ سے دو مقدمات بند کردیئے۔ پاکستان پوسٹل سروسز کے سابق سیکرٹری راجہ اکرام الحق‘ سابق منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن اعجاز علی خان‘ میسرز ایم ایس کے انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مسرور سرور خان کے خلاف پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن ہاؤسنگ سکیم میں کرپشن کے کئی الزام جس میں قومی خزانے کو 10 کروڑ روپے کا نقصان پہنچائے جانے کا الزام ہے‘ کے خلاف ڈی جی نیب راولپنڈی کو ای بی ایم نے ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرکے ایک ماہ میں رپورٹ ارسال کرے۔ اجلاس کے آغاز پر چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے تمام نیب کے افسران اور حکام کو ہدایت کی کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور کسی بھی قسم کی شکایات کی تصدیق‘ تحقیقات اور تفتیش میں شفافیت اختیار کریں