اسلام آ باد: چاروں صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے تعلیمی میدان کے اخراجات میں بے پناہ اضافے اور دعوؤں کے باوجود پاکستانی میں شرح خواندگی میں کمی نے پاکستان میں تعلیمی نظام اور تعلیمی عمل کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
حکومتی سطح پر ادارہ شماریات کی جانب سے پاکستان کے سماجی اور معیار زندگی کے جائزوں ( سوشل اینڈ لونگ اسٹینڈرڈ میزرمنٹ) کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان کے شرح خواندگی میں گزشتہ 2 سال میں 2 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے کے مطابق 2013-2012 میں پاکستان کا شرح خواندگی 60 فیصد تھی جو 2013 اور 2014 میں کم ہو کر 58 فیصد رہ گئی ہے۔ سروے میں سامنے آیا ہے کہ چاروں صوبائی اور وفاقی حکومت نے 2013-2014 کے دوران تعلیم پر537 ارب 60 کروڑ روپے خرچ کیے جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا 2.1 فیصد بنتا ہے اور یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دُگنا تھا جس کا اولین مقصد بچوں کو اسکول کی طرف لانا تھا۔
سروے کے مطابق پرائمری سطح پر اسکول میں بچوں کے داخلے لینے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ والدین کا بچوں کو اسکول بھیجنے سے انکار تھا، ہر10 میں سے 4 بچے اسکول نہیں جاتے جب کہ ہر10 میں سے 2 بچے اس لیے اسکول میں داخلہ نہیں لیتے کہ ان کے خیال میں تعلیم بہت مہنگی ہے اس کے علاوہ لڑکوں میں شرح خواندگی 70 فیصد جب کہ لڑکیوں میں 46 فیصد ہے جو گزشتہ 2 سالوں میں کیے گئے سروے کی مقدار کے یکساں ہے۔
سروے کے مطابق پنجاب اور خیبرپختون خوا میں شرح خواندگی میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم سندھ ور بلوچستان میں کمی آئی ہے، پنجاب شرح خواندگی میں سب صوبوں پر بازی لے گیا اور وہاں شرح خواندگی 61 فیصد رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے جب کہ پنجاب نے تعلیم پر 218 ارب روپے خرچ کیے، سندھ میں اگرچہ شرح خواندگی کا تناسب 53 فیصد رہا تاہم اس میں 4 فیصد کمی ہوئی اور حکومت نے تعلیم کے میدان میں 106 ارب روپے خرچ کیے۔
سروے میں بتایا گیا ہےکہ خیبر پختون خوا میں شرح خواندگی ایک فیصد اضافے کے بعد 53 فیصد رہی،خواتین کی شرح خواندگی میں بھی ایک فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کے میدان میں 89 ارب روپے خرچ کیے۔ بلوچستان میں شرح خواندگی میں 3 فیصد کمی کے بعد 43 فیصد رہی،لڑکوں کی شرح خواندگی میں کمی واقع ہوئی ہے جب کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کے مد میں 36 ارب روپے خرچ کیے۔
پاکستان میں شرح خواندگی بڑھنے کے بجائے کم ہوگئی، سروے
وقتِ اشاعت : May 15 – 2015