|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2015

کراچی :  وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سانحہ صفورہ کے ماسٹر مائنڈ اور سبین محمود سمیت قتل کی دیگر وارداتوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کو سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کی شاندار کارنامہ قرار دیتے ہوئے پولیس افسران اور عملے کیلئے 5کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے، وزیر اعلیٰ نے ملزمان سے مزید تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سانحہ کے بعد ہم پر طرح طرح الزامات لگائے گئے لیکن پولیس نے تین دن کے اندر اس جرم کی واردات کا سراغ لگا لیا ۔ انہوں نے یہ بات بدھ کی شام چیف منسٹر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی، وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، وزیر خزانہ مراد علی شاہ، وزیر قانون ڈاکٹر سکندر میندھرو، آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو، راجہ عمر خطاب اور دوسرے پولیس افسران بھی موجود تھے۔ وزیر اعلی ٰ نے کہا کہ13مئی کو صفورہ چورنگی پر بے گناہ اسماعیلیوں کو بے دردی سے مارا گیا اس واقعہ کی بعد سندھ حکومت کے خلاف بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کیں لیکن تین دن کے مختصر وقت میں اس واقع کا سراغ لگالیا گیا جس پر میں پولیس کو شاباش دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس واقع پر چار لوگوں کو پکڑا گیا ہے جو مشہور دہشت گرد ہیں اور یہ کارنامہ خالصتاً سندھ پولیس کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے گرفتار ملزمان کے نام ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا ملزم طاہر حسین منہاس ہے جس کے کئی دوسرے فرضی نام بھی ہیں یہ ٹرینڈ دہشت گرد جو بم بنانے اور آٹومیٹک ہتھیار چلانے میں مہارت رکھتا ہے اس شخص کا بہت بڑا گینگ ہے اور یہ واقع کا مرکزی ملزم ہے ۔ دوسرا ملزم سعد عزیز عرف جون عرف ٹن ٹن ہے جس نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسرٹریشن ( آئی بی اے) کراچی سے بی بی اے کیا ہوا ہے۔ یہ ملزم 2009ء سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور بہت تربیت یافتہ دہشت گرد ہے۔ یہ مختلف زبانوں میں جہادی لٹریچر بھی تیار کرتا تھا۔ ملزم این جی او کے مشہور خاتون سبین محمود کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ تیسرا ملزم محمد اظہر عرف ماجد ہے جو الیکٹرونک انجینئر ہے ، یہ بموں کے الیکٹرانک سرکٹ اور ڈیوائس بناتا تھا۔ چوتھا ملزم عبدالناصر عرف یاسر ہے جس نے جامعہ کراچی سے ایم اے اسلامیات کر رکھا ہے اور 2013ء سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے ۔ یہ لوگوں کو دہشت گردی کی ترغیب اور برین واش کا کام کرتا رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملزمان نے بہت سے انکشافات کئے ہیں ان کا گروپ 15سے20افراد پر مشتمل ہے، فی الحال باقی ملزموں کے نام ظاہر نہیں کر سکتے۔ وزیر اعلیٰ نے ملزمان کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ افراد رینجرز کے بریگیڈئیر باسط پر ناکام خود کش حملے، فیروز آباد میں ایک امریکی خاتون کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے، پولیس موبائلوں پر حملوں، پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گرفتار ملزمان سے مزید پوچھ گچھ کئے لئے وہ ان سے تفتیش کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ( جے آئی ٹی) کرائیں گے اور تاکہ ان کے جرائم کی مزید تصدیق ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سے پہلے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان کا تعلق بھارتی خفیہ ادارے “را” سے ہے یا کسی اور دہشت گرد گرو ہ سے ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں بلوچستان سے لیکر سندھ تک را کی سرگرمیاں موجود ہیں لیکن سانحہ ء صفورہ کے حوالے سے ہم مزید چھان بین بھی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سندھ پولیس نے اور بھی بہت سے اہم کیسوں کا سراغ لگایا ہے جن میں جے یو آئی کے خالد محمود سومرو کے قتل اور سانحہ ء شکار پور کے ملزمان کی گرفتاری خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈی آئی جی عارف حنیف خان پولیس افسر راجہ عمر خطاب اور ان کی ٹیم کے لئے پانچ کروڑ روپے اور ترقی دی جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ پولیس نے مجھے اور سندھ حکومت کو سرخرو کر دیا ہے جس پر میں سے شاباش دیتا ہوں ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کارنامہ پر وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے فون کرکے مبارکباد دی ہے اور سابق صدر آصف زرداری بھی بہت خوش ہیں۔کراچی پولیس نے صفورہ کے علاقے میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے حملے کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دیتے ہوئے حملے میں را کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ میں ملوث 4 ملزمان کو ماسٹر مائیڈ سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل غلام قادر تھیبو نے کہا کہ پولیس کے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ نے صفورہ کے علاقے میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ طاہر سمیت 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔صفورہ بس حملے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ غلام قادر تھیبو نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے چاروں ملزمان نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ حملے میں 11 افراد ملوث تھے جو کہ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود اور متعدد پولیس اہلکاروں کے قتل، بوہرا برادری اور امریکی پروفیسر پر ہونے والے حملوں میں بھی ملوث ہیں۔کراچی پولیس چیف کے مطابق یہ 11 ملزمان بین الاقوامی تنظیم القاعدہ سے متاثر ہیں اور ان کا تعلق مختلف قومیتوں سے ہیں۔پولیس سربراہ کے مطابق ان 11 ملزمان میں سے 4 کا تعلق خیبر پختونخوا، 4 پنجاب اور دیگر 3ملزمان کا تعلق کراچی سے ہے۔انھوں نے کہا کہ اسماعیلی اور بوہری برادری پر حملے کے عوامل کے پیچھے مذہبی انتہاء پسندی ہے۔غلام قادر تھیبو نے کہا کہ سبین محمود کا قتل لبرل خاتون اور امریکی حمایت کرنے پر کیا گیا ہے ٗ امریکی پروفیسر پر حملے کی وجہ ان کا ’امریکی‘ہونا تھی۔انھوں نے کہا کہ ملزمان متعدد پولیس اہلکاروں اور افسران کے قتل کے علاوہ رینجرز اہلکار پر حملے میں بھی ملوث ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے مطابق ملزمان گذشتہ 6 ماہ سے شہر میں مختلف دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے تھے۔