کراچی: صفورہ گوٹھ بس حملے کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اسماعیلی برادری کی بس پر حملے کے گرفتار 4 مرکزی ملزمان نے تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کو لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلانے پر قتل کیا گیا ہے۔
پولیس کے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ راجا عمر خطاب نے کہا ہے کہ اسماعیلی برادری کی بس پر حملے کے پیچھلے فرقہ وارانہ دہشت گردی تھی تاہم دہشت گرد اس واقعے سے بین الاقوامی سطح پربھی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بس پر حملے میں رہ جانے والے ایک اہم ثبوت کے باعث ان دہشت گردوں کی گرفتاری ممکن ہوسکی ہے۔
عمر خطاب نے کہا کہ وہ اس دہشت گرد گروپ کی گرفتاری کے لئے گذشتہ سال اپریل سے کام کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آئی بی اے گریجویٹ سے ‘عسکریت پسند’ تک؟
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ آخری ثبوت نے ان دہشت گردوں تک پہچنے میں مدد فراہم کی ہے جسے وہ اس وقت میڈیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔
گرفتار ہونے والے 4 دہشت گردوں میں سے صفورہ بس حملے کے ماسٹر مائنڈ طاہر عرف سائیں کو گلشن معمار سے گرفتار کیا گیا ہے، یہ علاقہ حملے کے مقام سے کچھ ہی فاصلے موجود ہے۔
سی ٹی ڈی حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر ملزم تفتیش میں مدد نہیں کررہا تھا تاہم پولیس افسران کی جانب سے اس کے گھر والوں کی تفصیلات بتائے جانے کے بعد ملزم نے صفورہ بس حملے اور دیگر کارروائیوں کے حقائق بتانے شروع کردیئے۔
عمر خطاب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ طاہر 2007 ء میں حیدرآباد پولیس کے ہاتھوں ہندو برادری کے فرد کو ہلاک کرنے اور اغوا برائے تاوان کی الزامات کے تحت گرفتار ہو چکا ہے تاہم بعد میں اس کو رہا کردیا گیا تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے گذشتہ دنوں طاہر کے بھائی شاہد کو جو کہ مبینہ طور پر دہشت گرد بتایا جاتا ہے، کو کراچی کے مضافات میں ایک مقابلے کے دوران ہلاک کردیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق صفورہ گوٹھ بس حملے کے گرفتار مرکزی ملزم سعد عزیز ٹرینگ حاصل کرنے کے لئے دو بار وزیرستان گیا تھا۔
سعد اردو سے انگریزی میں پمفلیٹ کا ترجمع کرتا تھا اور سبین محمود کے چلائے جانے والے سوشل میڈیا فورم ٹی ٹو ایف کے سیمینار میں دو بار شریک ہوچکا تھا۔
تیسرے دہشت گرد کے حوالے سے پولیس حکام نے بتایا کہ محمد اظفر عشرت کا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے اور وہ دہرا جی کالونی میں رہائش پذیر تھا۔
پولیس حکام کے مطابق اس کا مذکورہ گھر دیگر دہشت گرد چھپانے کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا جبکہ ملزم امریکی شہری ڈاکٹر لوبو پر حملے میں ملوث ہے۔
سی ٹی ڈی کے حکام کے مطابق گرفتار ہونے والا چوتھا دہشت گرد حافظ ناصر، عمر حفیظ نامی شخص کا بھائی ہے جو کہ اس دہشت گرد گروپ میں نمبر ٹو پر ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم دہشت گردوں کو انتظامی مدد فراہم کرتا تھا اور دہشت گردوں کے ان کے خاندانوں سے رابطے کا ذمہ دار بھی تھا۔
عمر خطاب نے کہا کہ مذکورہ دہشت گرد گروپ 35 افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیشتر حیدرآباد میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ گروپ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے لئے موبائل فون کا استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی دیگر جدید رابطے کے آلات استعمال کرتا ہے۔
عمر خطاب نے کہا کہ ان ملزمان سے مزید تفتیش اور اس گروپ کے دیگر تنظیموں سے رابطے کے حوالے سے تحقیقات کے لئے بہت جلد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔
صفورہ واقع کی تفیصلات بتاتے ہوئے عمر خطاب نے کہا کہ حملے میں 12 ملزمان شامل تھے اور مختلف راستوں سے واقعے کے مقام تک آئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ جب بس اسماعیلی برادری کو لے کر الاظہر گارڈن سے نکلی تو انھوں نے موٹر سائیکل پر بس کا پپیچھا کیا اور بس کو عنارہ گارڈن کے قریب روک کر پانچ ملزمان نے بس میں داخل ہوکر کارروائی کا آغاز کیا۔
ملزمان نے بس کے ڈرائیور کو نشست سے ہٹا کر بس میں سوار لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور بعد میں ایک ایک فرد کے سر پر قریب سے گولیاں چلائیں۔
عمر خطاب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کے دہشت گردوں نے ان کارروائیوں کے لئے رقم اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے حاصل کی ہے۔
’سبین مولاناعزیزکے خلاف مہم پر نشانہ بنی‘
وقتِ اشاعت : May 22 – 2015