|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2015

کوئٹہ :  موجودہ حکومت اور اس کے ارباب اختیار نے بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر بلوچ نوجوانوں پر علم و آگاہی و تعلیم کے دروازے بند کرنے سے دریغ نہیں کیا بلکہ لسانی بنیادوں پر تعلیمی داروں میں سیاست کے ذریعے میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں پسند و ناپسند کی بنیاد پر بلوچستان یونیورسٹی میں جو تعیناتیاں کی گئیں وہ میرٹ کے برخلاف ہیں بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر تعصب پر مبنی فیصلے کر رہے ہیں کرپشن ، اقرباء پروری ، میرٹ کو روندے سے گریزاں نہیں ہیں ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر واجہ جاوید بلوچ ، محبوب بلوچ ، عاطف بلوچ ، شوکت بلوچ و دیگر نے بی ایس او کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تعلیم کی زبوں حالی کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بی ایس او کے اسرار بلوچ ، ڈاکٹر اسلم بلوچ ، فضل بلوچ جبکہ بی این پی کے سعید کرد ایڈووکیٹ ، حفیظ الرحمان بنگلزئی ، کامریڈ یونس بلوچ و دیگر بھی موجود تھے اس موقع پر آغا حسن بلوچ ، جاوید بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے ارباب و اختیار نے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ہی تعلیمی اداروں میں سیاست اور لسانی بنیادوں پر جو پالیسیاں روا رکھیں اب وہ قابل تشویش حد تک بڑھتی جا رہی ہیں جو تعلیمی زبوں حالی ، پسماندگی کا سبب بنتے جا رہے ہیں جب معاشروں میں تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھی لسانی اور سیاسی بنیادوں پر فیصلے کئے جائیں میرٹ کی آڑ میں خود ہی میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں تو ان معاشروں میں تعلیم فروغ نہیں پا سکتا نہ ہی علم و آگاہی پروان چڑھ سکتی ہے موجودہ صوبائی حکومت اور اس کے ارباب و اختیار علم دشمنی پر مبنی پالیسیاں روا رکھی ہوئی ہیں اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد بلوچستان کے تمام جامعات میں جو بلوچ وائس چانسلران تعینات تھے انہیں دیوار سے لگا کر جونیئرز کو سیاسی بنیادوں پر غیر بلوچ وائس چانسلر تعینات کئے گئے جنہوں نے آتے ہی تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر بلوچ نوجوانوں پر علم و آگاہی کے دروازے بند کرنے سے دریغ نہیں کیا صوبائی حکومت کے ارباب و اختیار حکمران جماعت نے تمام تر اختیارات لسانی بنیادوں پر چلنے والے پالیسیوں کو فروغ دیا اور تعلیم میں سیاست اور میرٹ جو حکمرانوں کے ایوانوں اور اپنے پارٹی جیلوں کی خواہشات پر بن رہے ہیں جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ میرٹ نہیں بلکہ حکمرانوں کے گروہی و سیاست مفادات کی تکمیل ان کا نصب العین بن چکا ہے اور بلوچستان کے جامعات کے تمام وائس چانسلر ز کو اس بات کا پابند بنا چکے ہیں کہ بلوچ طلباء و طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے اور ان کا استحصال جاری رکھ کر انہیں دیوار سے لگایا جائے تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر بلوچ علاقوں کیلئے یو ایس ایڈ کا ریڈنگ پروجیکٹ تھا جس کا مقصد بلوچ علاقوں میں تعلیمی اداروں کی تعمیر و ضروریات پوری کرنا تھا لیکن اسے بھی حکمرانوں نے اسے بھی ختم کر کے سیاست کی نظر کر دیا کیونکہ یہ پروجیکٹ بلوچ علاقوں کیلئے مختص تھا اسی طریقے سے بلوچستان میں بلوچ علاقوں کے 6سو سے زائد لیکچرارز ، اساتذہ کی جو خالی آسامیاں مشتہر کی گئیں تھیں انہیں بھی بیک جنبش قلم بلوچستان کے ارباب و اختیار کے منسوخ کر دیا تاکہ اتحادی جماعت ناراض نہ ہو جائے اور ان میں اتنی سیاست و اخلاقی سکت نہیں کہ وہ اپنے اتحادی جماعت کی ناراضگی مول سکیں اسی طریقے سے زرعی کالج کا سائیڈ پلان میاں غنڈی میں تعمیر ہونا تھا اسے اغبرگ اس لئے شفٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ بلوچ علاقے میں تعمیر ہونے جا رہا تھا اسی طریقے سے ورکرز ویلفیئر کی جانب سے نصیر آباد میں تعمیر کی جانے والے کالج کو غیر بلوچ علاقے میں منتقل کرنا اور اب جبکہ سبی میں بلوچستان کے عظیم رہنماء میر چاکر خان رند کے نام سے جو یونیورسٹی قائم کیا جانا تھا اسے کی تعمیر میں بھی اتحادی جماعتوں کی جانب سے رکاوٹیں ڈال کر مخالفت کی جا رہی ہے کیا یہ صوبائی حکومت کی تعلیمی ایمر جنسی ہے یا یہ بلوچ طلباء و طالبات پر ایمر جنسی لگا دی گئی ہے کہ انہیں تعلیمی زیورکے حصول سے دور رکھنا مقصود ہے مقررین نے کہا کہ موجودہ حکومت کے ارباب و اختیار فوری طور پر بلوچ دشمنی پر مبنی تعلیمی ایمر جنسی ختم کریں کیونکہ اب بلوچستان کے باشعور عوام جان چکے ہیں کہ ایمر جنسی اس لئے لگائی گئی ہے کہ بلوچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جائیں اب تک جو موجودہ حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران دانستہ طور پر بلوچوں کو جدید تعلیمی سہولیات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں جب بلوچ نوجوانوں نے یونیورسٹی میں لیکچرارز ، پروفیسر کے نشست کیلئے این ٹی ایس ٹیسٹ میں فرسٹ نمبروں سے کامیابی حاصل کی تو گورنر و وزیراعلی ہاؤس سے گہری و گھناؤنی سازش کے تحت میرٹ پر پورا اترنے والے بلوچوں کی راہ کو روکنے کیلئے سلیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جو افسوسناک عمل اور ناروا سلوک ہے اس سازش میں وائس چانسلر کا کردار بھی انتہائی گھناؤنی اور قابل مذمت ہے اسی طریقے سے بلوچستان یونیورسٹی میں بے ضابطگیاں ، کرپشن اور ناانصافیوں پر مبنی پالیسیاں اب بھی جاری ہیں اور اب بھی لسانی بنیادوں پر تعیناتیاں کی جا رہی ہیں مقررین نے کہا کہ حکمران کس میرٹ کی بات کرتے ہیں چند ہی گھنٹوں کو جونیئر کو سینئر کو ترجیح دے کر کئی گریڈ ترقی دی گئی کیا یہ میرٹ ہے یا تعلیمی ایمر جنسی ؟ سابق دور حکومت میں مختص کئے گئے 70کے قریب ٹیکنیکل پوسٹیں تھیں اس میں بھی معزز عدالت کے فیصلے کے بعد ان لسٹوں میں بھی محکمہ تعلیم کے ارباب و اختیار کی جانب سے ردوبدل کیا گیا اور اپنے من پسند اور لسانی بنیادوں پر تعیناتیاں کی گئیں جو خود معزز عدالت کی کے فیصلے کی توہین ہے کیونکہ اپنے مرضی و منشاء کے خلاف اس میں تبدیلی کی گئیں بلوچستان انٹرمینڈیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن میں چیئرمین کی جانب سے بغیر ٹیسٹ انٹرویو لئے ملازمین کی تعیناتیاں کی گئیں جو صوبائی وزیر ، سیکرٹری ایجوکیشن ، چیئرمین کی ملی بھگت سے غیر قانونی اور سیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی گئی ہیں ان تمام بے ضابطگیوں ، میرٹ کی دھجیاں اڑانے اور اپنے جیالوں کو ملازمتیں دینا ، تعلیم میں سیاست اور کرپشن کرنا یہ تعلیمی ایمر جنسی ہے یا تعلیم کو تباہی کے دہانے تک پہنچانا ہے مقررین نے کہا کہ حکمران مکران سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے خالی آسامیاں ہیں ان پر فوری طور پر تعیناتیاں کی جائیں بولان میڈیکل کالج کا موجودہ سیشن جو تاحال شروع نہیں ہو سکا کلاسوں کا آغاز کیا جائے بلوچستان یونیورسٹی اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں جو غیر قانونی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں ہیں انہیں فوری طور پر منسوخ کیا جائے بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے اور بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت بند کی جائے میرٹ کی دھجیاں نہ اڑائی جائیں بیوٹمز ریسرچ سینٹر جو میاں غنڈی میں تعمیر ہونا ہے کام کا آغاز کیا جائے زرعی کالج کی منتقلی منسوخ کی جائے پبلک سروس کمیشن کی 600سے زائد خالی نشستیں مشتہر کی جائیں محکمہ تعلیم میں جونیئر کو سینئر پر ترجیح دینے کی پالیسی ترک کی جائے نیب حکام محکمہ تعلیم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے –