کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے وفاقی اداروں میں بلوچستان کے کوٹہ پر عملدرآمد اور بے روزگار انجینئر کا کوٹہ بڑھانے پر نظر ثانی کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی جبکہ بلوچستان کے کوٹہ پر بھرتی کیے گئے ملازمین کی چھان بین اور بلوچستان سے جعلی ڈومیسائل کی چھان بین کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ۔ اغبرگ میں بازئی قبائل کی زمینوں پر یونیورسٹی کیمپس کی تعمیر کے حوالے سے قبائل کو بغیر اعتماد میں لئے سے متعلق اپوزیشن لیڈر کی تحریک التواء نمٹادی گئی جبکہ کوئٹہ شہر میں صفائی کی مخدوش صورتحال سے متعلق تحریک التواء بحث کیلئے منظور کرلی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو روز کے وقفے کے بعد جمعرات کو پینتالیس منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کی صدارت پینل آٖ چیئرمین کے رکن زمرک خان اچکزئی نے کی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد متعلقہ ارکان اسمبلی اور مشیر کی عدم موجودگی کے باعث وقفہ سوالات موخر کردیا گیا۔اجلاس میں جے یو آئی کی خاتون رکن اسمبلی حسن بانو نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان انجینئر کونسل کے ہزاروں بے روزگار انجینئر ہے اور بے روزگاری کے باعث انجینئر ز میں تشویش پائی جاتی ہے بلکہ دوسری جانب دیگر صوبوں کے نوجوان بلوچستان کے ڈومیسائل بنا کر ہمارے کوٹہ پر بھرتی ہو رہے ہیں صوبائی حکومت وفاقی سے اس سلسلے میں پرزور سفارش کریں کہ بلوچستان کے کوٹہ پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ بلوچستان میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکیں ۔قرارداد پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ مرکز نے ہمیشہ ہمارے حقوق چھین لیے اور ہمارے ساتھ ہر حوالے سے زیادتی جاری ہے یہاں پر قرارداد پاس ہونے کے باوجود اس کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی ٹکڑی میں ڈالتی ہے انہوں نے کہاکہ اس کی واضح ثبوت گوادر کاشغر روٹ کے متعلق بلوچستان اسمبلی نے قرارداد پیش کیا کہ وفاقی وزیر پی اینڈ ڈی احسن اقبال کوئٹہ آکر بلوچستان اسمبلی کے ممبران کو روٹ کے متعلق بریفنگ دیں لیکن آج تک نہ وفاقی وزیر کوئٹہ تشریف لائیں اور نہ ہی ہمیں روٹ کے متعلق اعتماد میں لیا ۔رکن صو بائی اسمبلی حاجی محمد اسلام بلوچ نے کہاکہ وفاقی حکومت کا رویہ آج نہیں64سالوں سے زیادتی پر مبنی جاری ہے بلوچستان کوٹہ پر عملدرآمد نہ ہونے کے ساتھ دیگر صوبوں کے عوام ہمارے صوبے کے ڈومیسائل بنا کر ملازمتیں حاصل کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ اس مسئلے کے حل کیلئے صرف قرارداد ناکافی ہے بلکہ ایک کمیٹی تشکیل دیکر تاکہ وفاق سے دوٹوک بات کرسکیں ۔رکن صو بائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لوگ پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا میں سالوں سے رہے ہیں لیکن آج تک ان کو اس صوبے کی ڈومیسائل ملا اور نہ ملازمت بلکہ ان صوبوں کے عوام دھڑادھڑ بلوچستان کے ڈومیسائل بنا کر ہمارے نوکریوں پر قبضہ کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ وفاق کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سابق صو بائی وزیر صاد ق عمرانی نے اپنے دور میں وفاقی آفیسران کے ساتھ کیا انہوں نے کہاکہ حقوق کیلئے جنگ کی ضرورت ہے جب تک ہم حقوق کیلئے لڑیں گے اس وقت تک حقوق نہیں ملیں گے ۔رکن صو بائی اسمبلی یاسمین لہڑی نے کہاکہ بلوچستان کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی پرمشتمل ایک کمیٹی بنا کر وفاق سے بات کیا جائے ۔سپیکر نے اس موقع پر رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائینگے جس میں اپوزیشن لیڈر سمیت تمام پارلیمانی لیڈر شامل ہو نگے اور یہ کمیٹی 30مئی کو اسمبلی اجلاس سے قبل ایک اجلاس طلب کریں تاکہ یہاں معلوم ہوسکے کہ جعلی ڈومیسائل کون اور کہاں بن رہے ہیں بعدازاں ایوان نے قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔اس سے قبل اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ یونیورسٹی بلوچستان کے وائس چانسلر کی جانب سے بیان شائع ہوا ہے کلی غبرگ ضلع کوئٹہ میں یونیورسٹی کے سب کیمپس کی قیام کے لئے حکومت بلوچستان نے 2 سو ایکڑ زمین بلامعاوضہ یونیورسٹی کے نام منتقل کردی ہے یہ اراضی بازئی قبائل کی شاملات ہیں اراضی کے انتقال پر بازئی قبائل کو اعتماد میں لئے بغیر حکومت نے بلا معاوضہ جامعہ کے نام منتقل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مارچ 2007 اور موجودہ حکومت کی دور میں ایک ہی نوعیت کی 2 قرار دادیں پاس ہوئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ سرہ غڑگئی نواں کلی اور نوحصار سمیت دیگر علاقوں میں بازئی قبائل کی زمین پر فورسز قبضہ کررہی ہے لہذا فورسز کو ان قبائل کے زمینوں پر قبضہ سے روکا جائے اور یہ قرار دادیں متفقہ طور پر پاس ہوئی تھیں ۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ایک طرف ہم ایک طاقتور ادارے کے قبضے کے خلاف قرار داد پاس کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت بلامعاوضہ زمین یونیورسٹی کو دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین تمام قبائل کی مشترک ہے یونیورسٹی کے مخالف نہیں لیکن زمین کی الاٹمنٹ کے وقت مقامی قبائل کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا ۔ مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہاکہ تحریک التواء اور قرار دادوں کی نوعیت مختلف ہے قرار دادیں فورسز کی جانب سے زمین پر قبضے سے متعلق تھیں اس وقت صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کیمپس کے لئے زمین بلامعاوضہ دی ہے یہ زمین شاملات میں آتے ہیں ۔ شاملات کی زمین حکومت کی ا ختیار میں ہے اس زمین پر ایک ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں یونیورسٹی کیمپس کے علاوہ زرعی یونیورسٹی بھی تعمیر کی جارہی ہے اس حوالے سے بازئی قبائل کو باقاعدہ اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ مولانا عبدالواسع نے کہاکہ قبائلی عمائدین ہمارے پاس آئے تھے اور انہوں نے باقاعدہ شکایت کی ہے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ ایک طرف ہم فوج کو زمین دینے کی مخالف ہے جبکہ دوسری جانب قبائل کو اعتماد میں لئے بغیر یونیورسٹی کو دیا جارہا ہے ۔ پینل آف چیئرمین کے رکن زمرک اچکزئی نے کہا کہ یہ مسئلہ وزیر ریونیو اور وزیراعلیٰ کے ساتھ اٹھایا جائے ۔ سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ شاملات کی زمین صوبائی حکومت کی اختیارات میں ہیں حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے متعلق کسی بھی ادارے کو زمین الاٹ کرسکتی ہے ۔ زمرک اچکزئی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ مذکورہ زمینیں شاملات میں ہیں لیکن مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے ۔ یاسمین لہڑی نے کہا کہ یونیورسٹی ، کالج اور سکول سمیت کسی بھی تعلیمی ادارے کے لئے کمیونٹی زمین دیتی ہے بعد 4 کلاس کے ملازمین انہی قبائل سے بھرتی کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ علمدار روڈ پر بھی یونیورسٹی کیمپس بنانے کا اعلان ہوا تھا لیکن اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کیمپس کہاں تعمیر ہوگی ۔ آغا لیاقت نے کہا کہ جن کا زمینوں پر دعویٰ ہے انہیں کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے ۔ عبدالرحمن بازئی اور دیگر لوگ میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ زمین ہم نے بلامعاوضہ دی ہے لیکن شرط یہ دی ہے کہ کلاس فور کے ملازمتوں پر علاقے کے لوگوں کو بھرتی کیا جائے ۔ نواب محمد خان شاہوانی نے کہا کہ ہر قبیلے کے زمینوں کا حد معلوم ہے جن کو خسرہ نمبر الاٹ ہوچکا ہے وہ زمین اسی شخص کے نام ہوتا ہے جو لوگ زمین کے دعوے دار ہیں انہیں پہلے محکمہ ریونیو سے رابطہ کرے تاکہ ان کی ملکیت کی پوزیشن معلوم ہوسکے ۔ غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے لئے زمین لینے کا معاوضہ اچھا اقدام تصور نہیں کیا جاتا ہم نے کیڈٹ کالج کے لئے سو ایکڑ زمین دی اور شرط یہ لگائی کہ درجہ چہارم کے ملازمین پر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے ۔ سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ تحریک کو بحث کے لئے منظور کی جائے تاہم جب وزیراعلیٰ یا وزیر ریونیو آئیں گے تو وہی بہتر بتاسکیں گے کہ پوزیشن کیا ہے ۔ اس دوران حکومتی ارکان نے تحریک پر بحث کرانے سے متعلق تحریک التواء کی مخالفت کی جس پر اسپیکر زمرک اچکزئی نے تحریک التواء نمٹادی ۔ دوسری تحریک جے یو آئی کے حسن بانو نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہے اور ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا سبب بھی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کی آمد آمد ہے اور اس اہم نوعیت کے مسئلے کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر شمع اسحاق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے گھر ، گاڑی کو تو صاف رکھتے ہیں لیکن گلی کوچوں کو صاف کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی اس وقت کوئٹہ شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر موجود ہیں جس کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین اسمبلی میٹروپولیٹن کے ساتھ مل کر صفائی کے لئے خصوصی مہم چلائیں اس دوران اسپیکر نے تحریک التواء کو بحث کے لئے منظور کرلی جس پر 30 مئی کے اجلاس میں 2 گھنٹے بحث کی جائے گی ۔ جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں کوئٹہ شہر میں پانی کی صورتحال پر حسن بانو کی جانب سے گز شتہ اجلاس میں پیش کی گئی تحریک التواء پر بحث ہونی تھی تاہم وزیر واسا اور قائد ایوان کی عدم موجودگی پر فیصلہ کیا گیا کہ 30 مئی کو قائد ایوان اور وزیر واسا کی آمد کے موقع پر اس مسئلے پر بحث ہوگی ۔ کوئٹہ شہر کی صفائی کی حوالے سے تحریک التواء پر بھی بحث اگلے اجلاس میں کی جائے گی ۔