جنیوا: اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے کہا ہے کہ مستونگ واقعے میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا اسٹیبلشمنٹ کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے. شروع دن سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے نام نہاد سفارت خانوں کے ذریعے میرے خلاف دوسرے ملکوں کو غلط معلومات فراہم کرتی رہی تاکہ میں خوفزدہ ہوکر بلوچستان میں بلوچوں پر ہونے والے ظلم و زیادتوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہ اٹھاوں. ریاست اپنے ان مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ مہذب دنیا ریاست کے مکروہ چہرہ اور دوغلے پن کو اچھی طرح جان چکی ہے. اس ناکامی کے بعد ریاست نے اقوام متحدہ کا رخ کیا تاکہ مجھے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سالانہ سیشنز میں شرکت کرنے سے روک کر وہاں بلوچ آواز کو دباسکے اور بین الاقوامی برادری ریاست کی بلوچ قوم پر ڈھائی جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں سے بے خبر رہیں. جو این جی اوز مجھے اقوام متحدہ میں پلیٹ فارم مہیا کررہے تھے انہوں نے اپنے ریاستی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں یا تو بند کرایا اگر بند کرانے میں کامیاب نہ ہوا تو ان پرمسلسل دباو ڈالتا رہا کہ وہ مجھے اقوام متحدہ میں خطاب کرنے کا موقع فراہم نہ کریں. مہران بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی گوادر کو چین کے حوالے کرنے اور بلوچ وسائل کو لوٹنے کے لیے چین سے معائدے کے بعد پاکستان بلوچ تحریک آذادی کے خلاف ہر سطح پر مزید متحرک ہوچکی ہے،. اس سلسلے میں بلوچستان میں کوہستان مری، ڈیرہ بگٹی، مکران،کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن، چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے بلوچ نسل کشی کو تیز تر کردیا گیا. بلوچ تحریک آذادی کو کاونٹر کرنے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کو مزید فروغ دیا جارہا جس کے نتیجے میں شعیہ برادری پر حملوں میں حالیہ اضافہ دیکھاگیا. مستونگ واقعہ بھی بلوچ تحریک کو بدنام کرنے کی ایجنسیوں کی ناکام کوشش ہے۔ ریاست اپنی دم توڑتی ہوئی معشیت کو سہارا دینے کے لئے ہر حال میں چین سے کئے گئے معائدوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں بلوچستان کے طول و عرض میں آپریشن کو وسعت دینا چاہتی ہے. مستونگ واقعے کی ایف آئی آر مجھ سمیت دوسرے بلوچوں کے خلاف درج کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ اس واقعے کو جواز بنا کر ان علاقوں میں پہلے سے جاری آپریشن کو دوسرے علاقوں تک پھیلا سکے. حالانکہ بلوچوں کو مارنے کے لیے فورسز کو ایف آئی آر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جبکہ بیروں ملک مجھ سمیت دوسرے بلوچ رہنماوں و کارکنوں کے خلاف من گھڑت پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔جس کی خاص ذمہ داری بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے سپرد کی گئی.انہوں نے کہا کہ 19 مئی کو اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کے کونسلر ڈاکٹر دیار خان نے اقوام متحدہ میں این جی اوز کمیٹی کیسربراہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے میرے خلاف اسی طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر ان سے استدعا کی گئی کہ مجھے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سیشن میں شرکت سے روکیں. وہاں سے مثبت جواب نہ ملنے کے بعد مستونگ واقعے کی ایف آئی آر میرے خلاف درج کی گئی. ریاست اس طرح کے واقعات کراکے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ بلوچ ایک دہشت گرد قوم ہے۔مہران بلوچ نے کہا کہ میں ریاست کے اسطرح کے حربوں سے نہ پہلے خوفزدہ تھا اور نہ اب ہوگامیں دنیا کے ہر فورم اور ہر سطح پر ہم ریاست کی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا. اور میں بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ ریاست کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لیں۔