|

وقتِ اشاعت :   June 10 – 2015

کوئٹہ: بلوچ اسٹو ڈنٹس آرگنا ئزیشن کے مرکزی اعلان پرشہید اسلم جان گچکی کی برسی قومی جزبے سے منا ئی گئی۔مرکزی تعزیتی ریفرنس کالج آف ٹیکنالوجی کوئٹہ میں منعقد ہوا۔جس کا آغاز تلاوت کلام پاک شہداء کے ساتھ یکجہتی اور بلوچی ترانہ سے ہوا۔جس کے مہمان خاص بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر جاوید بلوچ تھے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے مرکزی چیئرمین جاوید بلوچ مرکزی دپٹی آرگنائزر جمیل بلوچ ممبر سنٹرل کمیٹی شاہجہان بلوچ منیر جالب بلوچ فدا بلوچ زونل صدر منیر بلوچ عاطف بلوچ محبوب بلوچ شوکت بلوچ اسرار بلوچ فضل بلوچ سلال بلوچ اشفاق بلوچ سلمان بلوچ امجد بلوچ اصغر بلوچ سمیت دیگر نے شہید کی قربانی پر روشنی ڈالتے ہو ئے کہا کہ شہید مرتے نہیں بلکہ ان کی قربانی قومی تحریکوں میں زندہ رہ کر توانائی کا موقع فراہم کرتی ہے۔شہید اسلم جان گچکی کی شہادت سے بلوچ قوم کو ان کی قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے کی روایت ڈالنے کی کوشش کی گئی۔لیکن بلوچ قوم نے شہید اسلم جان گچکی کی قربانی کو مشعل راہ بناکر بلوچ قومی جدوجہد کو ان کی سیاسی ومذاحمتی کردار و استحکام و ثابت قدم پر عمل پیرا بلوچ قومی حق خودارادیت کی جدوجہد کو منظم انداز میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔بلوچستان کی موجودہ حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔قتل غارت گری بد امنی گرفتاری اجتماعی قبروں کی دریافت اس قدر بڑھ چکی ہے۔کہ اب یہ روز کا معمول اختیار کر چکے ہیں۔بلوچ قومی سوال کو زیر کرنے کے لئے کاسہ لیس قوتوں کی مشاورت میں اضافہ کی جا چکی ہے۔جو وطن ضمیر اور قومی معیار تک کا سودا کرنے سے نہیں کتراتے۔شہدا کی یاد و قربانی کو مقصد کہہ کر اقتدار کی بُل بھلیوں میں شہدا ء کی فکر کو بھول بلوچستان کو غیر مقامی لوگوں کی آماجگاہ بنا کر یتیم خانہ بنا دیا ہے۔جس میں ہر نسل فرقہ علاقہ و غیر ممالک کے لوگ بآسانی ملیں گے۔جس سے بلوچستان کی سیاسی قومی اور ثقافتی رنگ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔شہید اسلم جان گچکی کی شہادت نے بلوچ قوم کو یکجہتی کا درس دیا ۔جو نوجوانوں کو ہی مستقبل کا کرن گردانتے تھے۔کیونکہ کسی بھی ملک و معاشرہ میں نوجوانوں کی عملی کردار ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔لیکن حکمرانوں نے اس اہم کردار کو ناکارہ بنانے کی غرض سے اکیسویں صدی میں بھی بلوچ نوجوون تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں ۔ لیکن تعلیمی ایمرجنسی انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن چکی ہے۔ نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔تعلیم کو کاروبار و سیاسی رشوت کے طور پر لسانی آباد کاری و جعلی اسناد کو حاسل کرنے کا زریعہ بنا دیا گیا ہے۔بلوچستان میں موجودہ حکومت کے دور میں غیرمقامی خصوصاً افگان مہاجرین کو سرکاری محکموں و تعلیمی اداروں تعنیات کیا جا چکا ہے۔جس میں بلوچ کی تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔محکمہ ایری گیشن میں قلات ن مستونگ میں باہر کے لوگوں کو تعنیات کیا جاچکا ہے۔جو بلوچ ناراضگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔وہ مذید نفرت و اشتعال کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔جو اقتدار کو طل دینے کیلئے بلوچستان میں بد امنی کی فروغ میں شامل کردار ہے۔جس سے بلوچستان کی سیاسی حقوق پر آمرانہ طرز پر تسلط کو برقرار رکہنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان مین جاری سیاسی عمل میں طاقت کے بے دریغ استعمال کو بلوچ قوم پر بالا دستی کو مضبوط کرکے بلوچ حق رائے اظہار کو مہذب دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی سازش قرار دیتے ہو ئے کہا ہے۔کہ بلوچ قوم کو آپریشن کی تکلیف دہ حالات کا سامنا ہے۔اکیسوین صدی کی سیاسی انسانی و جمہوری صدی میں بھی بلوچ قوم اپنی بقاء و قومی تشخص کی بحالی کے لئے ہزیمت سے دو چار ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی لا تعداد ہو چکی ہے۔نوجوانوں کو ان کی بلوچ ثقافتی انداز میں پانے کی سزا دہشت گرد ظاہر کرکے دی جا رہی ہے۔تعلیم کاروبار ببن چکی ہے۔انسانی حقوق کی پا مالیوں میں شدت اس حد تک بڑھ چکی ہے۔کہ بلوچ ساحل و وسائل پر چین پیرس دبئی میں معاہدات کرنے والے خود کو لا علم کہہ کر نہ جانے کس دنیا کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔باری لیتے وقت کیوں بلوچ تحفظات کا خیال نہیں رکھا گیا۔بلوچستان کے حالات میں تشدد کا بے حد استعمال سے انتشار میں اضافہ ہوگا۔اس طرح غیر انسانی نقل وعمل سے بلوچ قومی سوچ کو جو اپنی تاریخی پس منظر قومی شناخت جیو پولیٹیکل اہمیت عالمی معاشی و سیاسی حد بندیوں کی باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس پر رعالمی رسہ کشی جا ری ہے۔جس کے لئے سیاسی ماحول کو انتشار وخلفشار مذہبی و سماجی تنگ نظری کی رو میں بہانے کی منصوبہ بندی عالمی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔گوادر کی بین الاقوامی ساخت بلوچ قوم کے لئے قومی نا برابری کا ذریعہ بن چکی ہے۔جس آباد کرکے بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے کی سازش جا ری ہے۔پا رلیمانی نظام میں بلوچ مسئلہ کا حل نا ممکن ہے۔جہاں عوامی رائے اول تو تبدیل کیا جا تا ہے۔بعد میں ان کو وہ اہمیت ہی حاصل نہیں رہتی جس پر بہت کچھ اعتبار کیا جائے۔کیونکہ اس سسٹم میں سرف بولی لگا ئی جا سکتی۔باضمیر نمائندے انتقام کے عمل سے خاموش کرنے کی حکمت عملی سے زندگی سے نکال دیا جا تا ہے۔بلوچستان میں جاری جمود میں طالب علم دانشور ڈاکٹر وکیل سماجی کارکن اور سیاسی رہنماء و کا رکن زندگی کی بازی میں لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔بی ایس او بلوچ نوجوانوں کی فکری سیاسی اورشعوری نشونما ء باعلم تعلیم یا فتہ سماج کی تشکیل میں ہی بلوچ قومی حق خودارادیت کی پُر اصلاح مقصدکو حاصل کر سکتی ہے۔جسے غیر فعال بنانے کے لئے بلوچستان میں تعلیم لا حاصل وبنانے کی کوشش میں تعلیمی معیار کو ختم کی جا رہی ہے۔بلوچ نوجوان تعلیم کی عمل سے لیس قومی جدوجہد میں قومی کردار ادا کریں۔