|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہاہے کہ شہید حمید بلوچ کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان کی قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی مردم شماری سے قبل لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے بلوچ وسائل سے بھرپور زمین کے مالک ہونے کے باوجود آج بھی کسمپرسی بدحالی کا شکار ہیں گوادر ، ریکوڈک ، سیندک سمیت دیگر تیل و گیس کے مالا مال بلوچ سرزمین کے وسائل پر اختیار کی جدوجہد کرتے رہیں گے گوادر کے اختیار بلوچستان کو دیئے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں بلوچ وطن کے وسائل حقیقی ترقی کیلئے استعمال میں لائے جائیں تب ہی یہ سمجھ سکیں گے کہ بلوچوں کے خدشات و تحفظات کسی حد تک کم ہو سکیں گے پارٹی کی جانب سے کلی چاکر خان میں تعزیتی جلسہ کیا گیا جس کی صدارت شہید کی تصویر سے کرائی گئی جبکہ مہمان خاص آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ تھے اس موقع پر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ، غلام نبی مری ، احمد نواز بلوچ ، حاجی یوسف بنگلزئی ، رحمت اللہ بلوچ ، سعید کرد ،ذوالقرنین بلوچ و دیگر نے خطاب بھی کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ملک محی الدین لہڑی نے سر انجام دیئے اس موقع پر سینئر نائب صدر یونس بلوچ ، موسی بلوچ ، سردار رحمت اللہ قیصرانی ، لقمان کاکڑ ، علی احمد قمبرانی ، حاجی ابراہیم پرکانی ، آصف مینگل ، صاحب جان رند ، رضا جان شاہی زئی ، کامریڈ یونس بلوچ بھی موجود تھے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید حمید بلوچ کی شہادت بین الاقوامی سطح پر بلوچ قومی تحریک کو متعارف کرایا اور انہوں نے مظلوم ، محکوم ظفاری قوم کے خلاف بلوچ نوجوانوں کی مسقط آرمی میں بھرتی کے خلاف جدوجہد کی انہیں اسی پاداش میں شہید کیا گیا شہید حمید بلوچ کی شہادت قوم تحریک میں روشن مثال ہے آج بلوچ قوم پر مختلف قسم کے استحصال مسلط ہیں پارٹی ماورائے قتل و غارت گری ، بے گناہ انسانوں و بلوچوں کے قتل و عام کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اس ظلم پر خاموش نہیں رہ سکتے شہید حمید بلوچ دنیا کے محکوم اقوام کے شہید ہیں انہوں جس بہادری ثابت قدمی کے ساتھ پھانسی گھاٹ پر شہادت نوش کی وہ ہمارے نوجوانوں کیلئے سیاسی فکر و سوچ کی نشاندہی کرتی ہے مقررین نے کہا کہ شہید حمید بلوچ نہ صرف بلوچ بلکہ دنیا بھر کے مظلوم ، محکوم اقوام کیلئے جام شہادت نوش کیا آج بلوچستان اپنی انتہائی احساس سے گزر رہا ہے بلوچ قوم نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے اس کے باوجود بی این پی نے عملی سیاسی قومی جمہوری جدوجہد کی مقررین نے کہا کہ ان حالات میں بلوچ قوم کے فرزندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور سرزمین جو ہمارے آباؤاجداد کی سرزمین ہے بلوچستان مادر وطن کیلئے شہداء نے قربانیاں دیں تاکہ اپنی تاریخ ، تمدن ، تہذیب ، زبان ، جغرافیہ کی حفاظت کر سکیں اور شہداء نے قربانیاں اور جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بلوچستان کی بقاء کی جدوجہد کی مقررین نے کہا کہ بی این پی ایک قومی جماعت ہے جو عملی نظریاتی سیاسی جدوجہد کرتی ہے ہم نے بلوچ قوم پر ثابت کر دیا ہے کہ ہماری عملی جدوجہد بلوچ عوام کیلئے ہے اکیسویں صدی میں ہمارے بلوچ عوام پسماندگی ، بدحالی ، غربت ، جہالت ، معاشی تنگ دستی ، منظم سازش کے تحت ہمیں مزید استحصال اور سماجی طور پر بدحالی کی جانب دھکیلنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے دوسری جانب غیر ملکیوں کو تو بلوچستان میں شناختی کارڈز ، پاسپورٹ ، انتخابی فہرستوں میں اندراج کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن آج بھی تمام بلوچ طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مختلف انداز میں ان کے ساتھ ناروا ناانصافیوں پر مبنی پالیسیاں کسی بھی صورت درست نہیں بلوچ قوم قومی تحریک کی تشکیل میں اہم ذمہ داری سر انجام دے رہے ہیں بلوچ معاشرے میں نیم قبائلی فرسودہ جاگیردارانہ رشتوں کے خاتمے کیلئے بھی جدوجہد کر رہی ہے بلوچستان میں بلوچوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے قومی تشخص ، زبان و ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے جدوجہد کو یقینی بھی بنا رہی ہے مقررین نے کہا کہ بی این پی نے کبھی بھی تعصب ، شاؤنزم کی سیاست پر یقین نہیں رکھا بلکہ ترقی پسند ، روشن خیال ، قوم دوست وطن دوستی کی سیاست کی یہ واضح طور پر ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری رواداری سے کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ ہم چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں قبول کریں گے انہی کی وجہ سے دہشت گردی ، فرقہ واریت ، مذہبی جنونیت ، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اب حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان غیر ملکیوں کے انخلاء کو فوری طور پر یقینی بنائیں کیونکہ بلوچستان کو سیاسی یتیم خانہ بنانے نہیں دیں گے کیونکہ اس سے قبل سامراج یا انگریزوں نے جو معاہدے کئے بلوچ حکمرانوں سے کئے کوئٹہ 9ہزار سالوں سے بلوچ سرزمین کا مسکن ہے اب یہاں پر افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے آباد کاری جاری ہے صوبائی حکومت کوئی واضح پالیسی نہیں دے گی شناختی کارڈز ، پاسپورٹ جاری کرنے کیلئے بلوچستان حکومت کی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے موجودہ حکمران بلوچستان میں بلوچ علاقوں کو ترقیاتی کاموں میں یکسر نظر انداز کر رہے ہیں جو قابل تشویش ہے تمام طبقہ فکر کو اسی طریقے سے استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تعلیم ، صحت ، سروسز ملازمتوں سمیت اہم پوسٹوں پر غیر بلوچوں کو تعیناتی کیا جا رہا ہے جس سے بلوچستان میں مزید احساس محرومی اور محکومیت میں اضافہ ہو رہا ہے 2013ء کے انتخابات کے بعد ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جو انفرادی مفادات پر یقین رکھتے ہیں انہیں عوام کے دکھ درد ، مشکلات و بلوچستان کے جملہ مسائل سے کوئی سروکار نہیں ان حالات میں بی این پی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے عوام سرزمین کی حفاظت کیلئے جدوجہد اور قربانی دے کر اپنی سیاسی فکری سوچ کو تقویت دے مقررین نے کہا کہ 2016ء میں مردم شماری سے قبل افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی نہ بنایا گیا تو اس مردم شماری کی آئینی کوئی حیثیت نہیں ہوگی نہ ہی جعلی حکمرانوں کو یہ مینڈیٹ ہے کہ وہ بلوچستان میں مردم شماری ، خانہ شماری کریں گوادر سمیت بلوچستان کے جتنے سے وسائل ہیں ان پر پہلا حق بلوچوں کا ہے کیونکہ سرزمین ہمیں کسی نے خیرات میں نہیں دی یہ ہماری آباؤاجداد پر آماج گاہ ہے اور اس کی زبان ، ثقافت کی بقاء کیلئے ہم جدوجہد کریں گے آئینی حوالے سے بھی ان وسائل پر ہمارا اولین حق بنتا ہے حکمران فوری طور پر گوادر سمیت میگا پروجیکٹس و دیگر وسائل کے اختیارات بلوچستان کو دے تاکہ ہمارے خدشات و تحفظات کو ختم کرکے بلوچستان کی حقیقی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گوادر سے متعلق اقتصادی روٹ کی ثانوی حیثیت ہے جب اختیارات بلوچستان کے پاس ہوں گے تو وہ اپنے عوام کے مسائل کو ملحوظ خاطر کر جدوجہد کریں گے –