کوئٹہ : رواں سال کے وفاقی بجٹ میں گوادرپورٹ سٹی کو پاکستان بھر کے ریل لنک سے منسلک کرنے کیلئے اراضی خریدنے کیلئے ایک ارب 33کروڑ20لاکھ روپے رقم مختص کردیئے گئے ہیں گوادر پورٹ سٹی کو کراچی یاجیک آباد ریلوے لائن سے کنکیٹ کیا جائے گا ‘ مالی سال 2015-16ء میں وفاقی حکومت نے گوادر پورٹ کے قریب ریلوے کنٹینر یارڈ کیلئے 88کروڑ20لاکھ روپے مختص کیے ہیں جو گوادر ڈیپ سی میگا پروجیکٹ کاحصہ ہوگا‘ پاکستان کے پاس پہلا آپشن یہ ہے کہ وہ گوادر کو کراچی سے ریل سروس کے ذریعے منسلک کرے جو باراستہ کوسٹل ہائی وے ہوگا ‘ کراچی سے کارگو کی ملک کے شمالی علاقومی میں سپلائی و ترسیل یاچائناکے ژانجیان کے زیر استعمال لانے کیلئے معیاری ریلوے ٹریک تعمیرکیا جائے گا تاکہ ٹرانسپورٹیشن کاسلسلہ تسلسل کیساتھ برقرار رہے اور بلا کسی رکاوٹ کے جاری رہے ‘ ماہرین معاشیات اور پلانرز کے مطابق دوسرا آپشن یہ ہے کہ گوادرکو تربت‘ ہوشاپ‘ بسیمہ‘ خضدار اور شہدات کوٹ ریلوے ٹریک کے ذریعے ملایا جائے جس کے بعد انہیں ملک کے شمالی علاقوں سے ملایا جائے گا‘ اس منصوبے کے تحت ٹریک کو انڈس ہائی وے سسٹم کے ذریعے ملک کے جنوبی علاقوں کو شمالی علاقوں سے ملایا جائے گاتاہم ماہرین کا یہ خیال ہے کہ کراچی گوادر ریلوے ٹریک سے زیادہ تر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جس کے تحت مکران کوسٹ سے کراچی اور بندرعباس یابندر لنگا میں واقعددرجنوں پورٹس ایک دوسرے سے لنک ہوجائیں گے جس کے معاشی فوائد زیادہ ہونگے کیونکہ یہ ٹریک مکران کوسٹ کے آخری پورٹ تک جائے گا جوایرانی بلوچستان میں واقع ہے ۔ اتنی بڑے ریلوے لائن بچھانے سے مکران کوسٹ کو مدد ملے گی کہ وہ اپنے پورٹس کے بوجھ کو کم کرسکے اس سے کارگو کی بروقت دوسرے قریبی پورٹس میں منتقلی میں بھی آسانی پیش آئیگی ‘ تاہم آزاد ماہرین معیشت کے مطابق ریلوے ٹریک کو لینڈ لاک ماملک سے ملایا جائے جس میں افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں اور تمام پورٹس کا استعمال ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے عمل میں لایا جائے تاکہ وسطی ایشیاکے ممالک جن کے پاس کوسٹ یا ساحل کی سہولت نہیں ہے ان کو آسانی پیش آئے ٹرانزٹ ٹریڈ میں ان کے لئے آسانی پیش آئے ۔ آزاد ماہرین معاشیات نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ گوادر ریلوے لنک کو بالکل واضح ہونا چاہیے یہ نوشکی کے قریب ہواورکچلاک میں چیک پوسٹ کے قریب اور آر سی ڈی آئی وے سے گزرنی چاہیے ۔ حکومت کو بتایا گیا ہے کہ یہ ریلوے ٹریک کو تربت‘ پنجگور ‘ خاران اور چاغی کے اضلاع سے گزرتے ہوئے زاہدان تک ملانا چاہیے کیونکہ پاکستانی ریلوے سسٹم سیندک گولڈ اینڈ کاپر مائن فیلڈ تک دستیاب ہے جو کہ ایران اور افغانستان سے بہت قریب ہے۔گوادر کو کوئٹہ زاہدان ریلوے سیکشن سے ملانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں زیادہ ترعلاقے پہاڑی نہیں اورمشکلات بھی پیش نہیں آئیگی اگربروقت کام شروع کیا گیا توجلد پائے تکمیل تک پہنچانے میں آسانی پیش آئیگی ‘ اگر اس ریلوے ٹریک کو افغان سرحدی علاقے ملک سیاہ کوہ رینج تک پہنچا دیا گیا تو اسکے بعد افغان اوردیگروسطی ایشیائی ممالک کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے علاقوں میں ریلوے ٹریک بچھانے کا بقایا کام جلد سے جلد مکمل کریں کیونکہ اس میں انکی اپنی ضرورت شامل ہو گی اور معاشی فائدہ بھی ہوگا‘اگر اس روٹ کواپنا یا گیا تو اس بات کے واضح امکانات ہے کہ پاکستان حکومت کوبلوچ ساحل اور سطی ایشیائی ممالک کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کے فیس کی مد میں سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوگی‘پورے بین الاقوامی مارکیٹ میں قوتوں کی نگائیں اس گوادر چابہار روٹ کواستعمال کرنے پر مرکوز ہونگی جس کو استعمال کرتے ہوئے مختصر فاصلے پرافغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچاجاسکتا ہے ‘ گوادر سے چابہار محض 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے دونوں ڈیپ سی پورٹس مکران کوسٹ پرواقع ہیں ‘ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ کے سرمایہ کار ٹرانزٹ کی سہولت کیلئے بندرعباس پورٹ کواستعمال کرکے اشیاء کو وسطی ایشیاء درآمد کررہے ہیں جو بہت لمبا راستہ ہے ‘ اس کا کل فاصلہ تقریبا دو ہزار آٹھ سو کلو میٹر ز پر محیط ہے جبکہ گوادر چابہار کا سے فاصلہ تقریب 14سو کلو میٹر ہے جس سے نہ صرف پیسے بلکہ بہت وقت بھی بچایا جاسکے گا اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ گوادر کو زاہدان سے لنک کیا جائے تاکہ انٹرنیشنل مارکیٹ کی قوتیں اس کا بہتر استعمال کرسکیں جس طرح زاہدان دنیا بھر کے ریلوے ٹریک سے منسلک ہے اور بہت ہی معیاری ٹریک اور ٹرین چلا رہاہے جس کو مد نظررکھتے ہوئے گوادرکیلئے بھی یہی ماڈل استعمال کیا جاسکتا ہے ‘ گوادراس بین الاقوامی ریلوے سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے سب کیلئے معاشی فائدے فراہم کرنے کے مواقع دے گا ‘ایران نے پہلے ہی صدی پرانی ریلوے ٹریک کی عدم سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے ذاہدان کو کرمان سے ریلوے ٹریک کے ذریعے ملایا ہے اب وہ انٹرنیشنل روٹ کاحصہ ہے ‘ اگر اسی نوعیت کا ریلوے ٹریک پاکستان میں تعمیر کرلیا گیا تو ایران بھی اس سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے چابہار سے کاروگو کو اس جانب منتقل کرے گا تاکہ تواتر کے ساتھ کاروگوکی فراہمی کابوجھ کم کیا جاسکے اوراسے بہتر اندازمیں چلایاجائے‘ اس مد میں پاکستان اضافی رقم حاصل کرسکے گا اور اس سے بھارت کو مایوسی ہوگی کیونکہ اس منصوبہ بندی سے بھارت کے وسطی ایشیاء میں حکمرانی کے عزائم ناکام ہوجائیں گے ‘ اب پاکستان اور ایران کے درمیان ظاہری طور پر ایک مقابلہ نظر آرہا ہے کہ بنیادی ڈھانچہ بہتر کرکے پورٹ کی سہولت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلایا جائے ۔