|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2015

کوئٹہ:  بلوچ نوجوان قلم کو اپنا ہتھیار بنائیں بی ایس او نے ہمیشہ ایسی قیادت بلوچوں کو دی جو بلوچستان کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہدمیں کلیدی کردار ادا کرتے رہے معاشرے میں انقلاب علم و آگاہی اور سیاسی شعور سے ہی آتی ہے بی ایس او کے شہداء ہم لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں بلوچستان نوجوان تعلیم کے حصول کو اپنا نصب العین بنائیں جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بلوچستان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بلوچ نوجوانوں کی ذہنی فکری اور شعوری نشوونما کر کے بلوچستان کے تعلیمی پسماندگی و بدحالی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں بی ایس او کی اپنی ایک تاریخ ہے ایسی قیادت ، شہداء بلوچ قوم کودی بی ایس او کا بیرک بلوچ نوجوانوں کیلئے راہ کا تعین کرتا رہا ہے آج بلوچ نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان طلباء ، طالبات کی ذہنی و فکری سوچ کو اجاگر کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور بلوچستان کی سرزمین جو وسائل سے مالا مال ہے اس کی حفاظت و بقاء کی جدوجہد کیلئے اٹھ کھڑے ہوں علم و آگاہی و تعلیم کو اولیت دے کریہ ثابت کروایا جائے کہ بلوچ نوجوان ہر شعبے میں اپنی نمائندگی کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن بلوچ طلباء نے زرعی کالج میں بہتر پوزیشنز لیں یہ بھی اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے نوجوان علم کو اپنا ہتھیار بنا چکے ہیں ان خیالات کا اظہار بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے نئے آنے والے طلباء و طالبات کی اعزاز میں دیئے گئے پارٹی سے بی این پی کے مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر واجہ جاوید بلوچ ، پروفیسر عارف شاہ ، فدا بلوچ ، فہد بلوچ ، الطاف بلوچ ، ارسلان بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بی این پی کے رہنماء حاجی فاروق شاہ ، سردار رحمت اللہ قیصرانی بھی موجود تھے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا میرٹ کی آڑ میں خود ہی میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں تو ان معاشروں میں تعلیم فروغ نہیں پا سکتا نہ ہی علم و آگاہی پروان چڑھ سکتی ہے جامعات میں جو بلوچ وائس چانسلران تعینات تھے انہیں دیوار سے لگا کر جونیئرز کو سیاسی بنیادوں پر غیر بلوچ وائس چانسلر تعینات کئے گئے جنہوں نے آتے ہی تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر بلوچ نوجوانوں پر علم و آگاہی کے دروازے بند کرنے سے دریغ نہیں کیا موجودہ صوبائی حکومت اور اس کے ارباب و اختیار علم دشمنی پر مبنی پالیسیاں روا رکھی ہوئی ہیں حکمرانوں کے ایوانوں اور اپنے پارٹی جیلوں کی خواہشات پر تعلیمی ادارے چلائے جا رہے ہیں جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ میرٹ نہیں بلکہ حکمرانوں کے گروہی و سیاست مفادات کی تکمیل ان کا نصب العین بن چکا ہے مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف جامعات میں نااہل لوگوں کو سربراہ مقرر کیا گیا جو تعلیم کے فروغ کے بجائے تعلیمی پستی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں بلوچستان کی اپنی مثبت روایات رہی ہے اس کی پامالی کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس پھیلانے ، طلباء و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنانے ، حراساں کرنے کی کوششیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے ارباب و اختیار نوجوانوں کے مزاج کو سمجھنے کے بجائے طاقت کا سہارا لے رہے ہیں جس سے نوجوانوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی پالیسی دراصل علم و آگاہی کے خلاف اقدامات کے مترادف ہے تعلیم اور شعور اس وقت پروان چڑھ سکتے ہیں جب بہتر ماحول اور مثبت پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں موجودہ تعلیمی ایمر جنسی دراصل نوجوانوں کیلئے مسائل کا سبب بن رہی ہے تعلیمی دانش گاہوں میں سیاسی مداخلت انتہائی خطرناک ہے ہم بلا رنگ و نسل ، قومیت کوشش ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول میسر کیا جائے جس سے حقیقی معنوں میں تعلیم کا حصول ممکن ہو سکے سیاست اور گروہی مفادات کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا جائے میرٹ سے ہٹ کر جب پالیسیاں مرتب کی جائیں گی تو تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا زرعی کالج کے طلباء و طالبات پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ علم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کریں اور تعلیمی انقلاب سے ہی بلوچ نوجوانوں کی ذہنی و فکری سوچ کو اجاگر کریں زیادہ سے زیادہ وقت تعلیم کے حصول کیلئے وقف کر دیں تاکہ اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں پر پورا اتر کر بی ایس او کے ان شہداء کے مشن کی تکمیل اس وقت ممکن ہے جب ہم نوجوانوں کی ہاتھوں میں قلم دیں اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے باشعور عوام جان چکے ہیں کہ ایمر جنسی اس لئے لگائی گئی ہے کہ بلوچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جائیں اب تک جو موجودہ حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران دانستہ طور پر بلوچوں کو جدید تعلیمی سہولیات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی میں بے ضابطگیاں ، کرپشن اور ناانصافیوں پر مبنی پالیسیاں اب بھی جاری ہیں اور اب بھی تعیناتیاں کی جا رہی ہیں مقررین نے کہا کہ حکمران کس میرٹ کی بات کرتے ہیں چند ہی گھنٹوں کو جونیئر کو سینئر کو ترجیح دے کر کئی گریڈ ترقی دی گئی کیا یہ میرٹ ہے یا تعلیمی ایمر جنسی ؟ بلوچستان انٹرمینڈیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن میں چیئرمین کی جانب سے بغیر ٹیسٹ انٹرویو لئے ملازمین کی تعیناتیاں کی گئیں جو صوبائی وزیر ، سیکرٹری ایجوکیشن ، چیئرمین کی ملی بھگت سے غیر قانونی اور سیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی گئی ہیں ان تمام بے ضابطگیوں ، میرٹ کی دھجیاں اڑانے اور اپنے جیالوں کو ملازمتیں دینا ، تعلیم میں سیاست اور کرپشن کرنا یہ تعلیمی ایمر جنسی ہے یا تعلیم کو تباہی کے دہانے تک پہنچانا ہے مقررین نے کہا کہ حکمران مکران سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے خالی آسامیاں ہیں ان پر فوری طور پر تعیناتیاں کی جائیں بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت بند کی جائے میرٹ کی دھجیاں نہ اڑائی جائیں بیوٹمز ریسرچ سینٹر جو میاں غنڈی میں تعمیر ہونا ہے کام کا آغاز کیا جائے زرعی کالج کی منتقلی منسوخ کی جائے ۔