کوئٹہ: بلوچستان کے اعلیٰ حکومتی اور عسکری حکام پر مشتمل ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں ریاست کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں عام معافی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لڑائی ترک کرنے والے جنگجوؤں کی مالی امداد بھی کی جائے گی ۔ ایپکس کمیٹی نے دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے وسائل اور فنڈنگ کی تحقیقات کرکے پس پردہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی اور مدارس کی رجسٹریشن محکمہ انڈسٹریل کی بجائے محکمہ تعلیم سے کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یہ اہم فیصلے جمعہ کو وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ چاروں صوبوں میں ایپکس کمیٹیاں سانحہ پشاور کے بعد دہشتگردی کے خلاف قومی لائحہ عمل ( نیشنل پلان آف ایکشن) کے تحت تشکیل دی گئی تھیں۔ ان کمیٹیوں میں متعلقہ صوبوں کے گورنر، وزیراعلیٰ، وزیر داخلہ ، کور کمانڈر، آئی جی ایف سی یا ڈی جی رینجرز، آئی جی پولیس ، چیف سیکریٹری ، صوبائی سیکریٹری داخلہ اور حساس اداروں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں اور یہ صوبے کی سطح پر اعلیٰ ترین فورم ہوتا ہے ۔ بلوچستان میں ایپکس کمیٹی کا یہ پانچواں اجلاس تھا ۔ اس سے پہلے 9اور30جنوری،18فروری اور13مارچ کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوچکے ہیں۔ جمعہ کو وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت ہونے والے تازہ اجلاس میں میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی ، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ ، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، جنرل کمانڈنگ آفیسرز، آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن ، سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی، آئی جی پولیس محمد عملیش ، کمشنر کوئٹہ کمبر دشتی ، ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ، حساس اداروں کے نمائندوں سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا گیا اور دہشت گردوں اور شر پسندوں کے خلاف مؤثرکاروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ، متعلقہ اداروں کی اس حوالے سے تجزیاتی رپورٹوں اور سفارشات کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ متعلقہ اداروں کے باہمی اشتراک سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کئے گئے اقدامات سے عوام میں احساس تحفظ پیدا ہوا ہے اور جرائم پیشہ ،ناپسندیدہ عناصر اور شر پسندوں کے خلاف جاری کاروائیوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آر ہے ہیں، ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں امن و عامہ کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں پر امن بلوچستان مفاہمتی پالیسی پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا تاکہ وہ نوجوان جو ریاست کے خلاف مسلح کاروائی ترک کرنے کا یقین دلائیں ان کو عام معافی دی جائے گی اور حکومت ان کی بحالی کے لیے مالی مدد کرے گی۔ اجلاس میں ملکی سطح پر دینی مدارس کی تنظیم نو اور رجسٹریشن، افغان مہاجرین سے متعلق صوبائی حکومت کے موقف اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے والے فنڈز کی تحقیقات سے متعلق امور کا بھی تفصیلی جائرہ لیا گیا اور طے پایا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل محکمہ تعلیم کے توسط سے مکمل کیا جائیگا، جبکہ افغان مہاجرین کے حوالے سے صوبائی حکومت کے موقف سے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا جائیگا، ایف آئی اے، کسٹم، نیب اور پولیس کے ذریعے دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے والے وسائل اور فنڈنگ کی تحقیقات کرائی جائے گی، اور ان میں ملوث پس پردہ عناصر کو عوام کے سامنے لایا جائیگا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دلائی جائے گی، اجلاس میں دہشتگرد مذہبی کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا گیا اجلاس میں مستونگ کھڈ کوچہ کے المناک واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف ایف سی کی کاروائی کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا، ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ نے اجلاس کو کوئٹہ شہر میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بارے میں تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیموں کی اب تک کی کارکردگی سے آگاہ کیا، جبکہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے مسافروں بسوں کے سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے اجلاس کو تفصیلات فراہم کیں، اجلاس میں لیویز فورس کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا اور محکمہ داخلہ کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی۔دریں اثنائصوبائی سیکریٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کو پانچ سے پندرہ لاکھ روپے فی کس دینے کا فیصلہ کیا ہے ، اس سلسلے میں تین ارب روپے کا پیکیج منظوری کیلئے وفاقی حکومت کو ارسال کردیا ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کی ضمانت ان کے قبیلے کے سربراہ سے لی جائے گی بلکہ ان فراریوں کے نام شیڈول فور میں شامل کرکے ان کی کڑی نگرانی بھی کی جائے گی تاکہ یہ دوبارہ غلط راستے پر نہ جاسکے۔ ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی کا پانچواں اجلاس وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی صدارت میں ہوا جس میں کمانڈر سدرن کمانڈ، صوبائی وزیر داخلہ، چیف سیکریٹری، صوبائی سیکریٹری داخلہ، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس ، جنرل کمانڈنگ آفیسرز اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیراعظم کی جانب سے نیشنل پلان آف ایکشن کے تحت دیئے گئے تمام بیس نکات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ڈی جی لیویز نے لیویز کے استعداد کار ، ڈی آئی جی کوئٹہ نے کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات میں پیشرفت پر بریفنگ دی۔ کمشنر کوئٹہ نے کھڈ کوچہ واقعہ کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے تحفظ سے مقدمات اقدامات سے آگاہ کیا۔ اکبر درانی نے بتایا کہ ایپکس کمیٹی نے پالیسی ایک ترتیب دی ہے جو منظوری کیلئے پالیسی وفاقی حکومت کو بجھوائی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے تحت وہ لوگ جو ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں حکومت ان کو مالی مدد فراہم کرے گی لیکن ان کا ریکارڈ صاف ہو وہ کسی مجبوری میں اس لڑائی میں شامل ہوئے ہو ۔ جو فراری سنگین جرائم میں ملوث ہوں گے ان کی ایک علیحدہ کیٹگری بنائی جائے گی۔ صوبائی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کی ضمانت قبیلے کے سربراہ سے لی جائے گی اور انہیں شیڈول فور میں رکھا جائے گاجس کے تحت وہ ہر ہفتے یا دس دن میں قریبی تھانے میں رپورٹ دیں گے ۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی ان پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ اکبر درانی نے بتایا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے بچوں کی تعلیم اور اہلخانہ کی معاونت بھی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے والے فی کس کوپانچ سے پندرہ لاکھ روپے دیئے جائیں گے اور اس مد میں تین ارب روپے کا پیکیج منظوری کیلئے وفاقی حکومت کو بجھوادیا ہے ۔