کوئٹہ : پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سینئر صوبائی وزیر چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر مالک کو انہوں نے حکومت دے دی ۔اگر میں وہ یا میاں صاحب چاہتے تو ہم آسانی سے حکومت بنا سکتے تھے ۔یہاں تک کہ اسی رات میں وہ بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان حلف اٹھانے جارہے تھے کہ ن لیگی قیادت نے ان کو مری بلالیا ۔جہاں پر مری معاہد ہوا ۔جس کے تحت قوم پرستوں کو وزارت اعلیٰ دی گئی ۔اورہم نے حکومت اس شرط پر حکومت ان کو دی تھی لا ء اینڈ آرڈر ٹھیک کرنیکا دعویٰ تھا ۔مکران ڈویژن میں 8گاڑیوں کے حصار کے بغیر سفر ممکن نہیں ہے ۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ۔لاء اینڈ فورسز کو میں داد دیتا ہو اگر ایجنسیاں نہیں ہوتی بلوچستان کے خطے میں اتنے سارے غیر ملکی ایجنسیاں کا م روکنا مشکل ہوتا ۔اب تک پاکستان کا نقشہ بدل ہوچکا تھا ۔ یہ ایجنسیوں کی مہربانی ہے جنہوں نے حالات کو کنٹرول کیا ہوا ہے ۔ جبکہ خصوصا ایف سی نے اپنے آفسروں کی قربانیاں تک دیکر امن قائم کیا ۔ خصوصاً مستونگ میں پشتون بھائیوں قتل را اور موساد کے دہشتگردوں کا کام ہے جوکہ ان سے پیسے لیکر ہمارے لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔ خود ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر ہمارے بچوں کو ملک کیخلاف استعمال کیا جارہا ہے ۔شناختی کارڈ دیکر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔یہ تاثر قتعاً غلط ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے بلوچستان کے حالات خراب کررہے ہیں یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے ۔ ہمارے صوبے کے دو ممالک کیساتھ بارڈر لگتے ہیں ۔جس سے ہم 47سے آج تک متاثر ہورہے ہیں ۔ایران ‘ افغانستان کیساتھ بہت بڑے بارڈر ہے ۔اتنے بڑے بارڈر کو کنٹرول کرنا ایف سی اور ملکی سلامتی ایجنسیوں داد دیتا ہو دن رات ایک کرکے ملکی سلامتی کیلئے کام کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ بہت جلد خان آف قلات سے ملاقات کیلئے لندن جارہے ہیں ۔انہوں نے صرف سیاسی پناہ لی ہے ان کیلئے عزائم کبھی بھی نہیں رہے کہ کبھی قتل و غارت میں ملوث رہا ہو ۔ بے لوگوں کو مارنے میں ملوث کبھی بھی نہیں رہے بلکہ ان واقعات کی وہ مذمت کرتے چلے آرہے ہیں ۔لیکن جن لوگوں تنظیمیں بنائی ہوئی ہے بے گناہ لوگوں کو قتل کررہی ہے ۔اب بھی پچھلے دنوں میں تربت میں 20مزدوروں کو شہید کیا گیا ۔ مزدور اپنے گھر بار جھوڑ کر صرف 400روپے کی خاکر یہاں مزدوری کرنے آئے تھے ان کا کیا قصور تھے ۔چار دن پہلے کوئٹہ میں تین مزدروں کو قتل کیا گیا ۔یہاں تک کے پنجاب سے آنیوالے بسوں سے لوگوں کو شناخت کے بعد مارا جارہا ہے ۔مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑھ جارہا ہے ۔ کہ پشتون دہشتگردی کرے تو دہشتگرد ہے ۔ بلوچ دہشتگردی کرے تو وہ ناراض بلوچ ہے ۔اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا ۔ اگر اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کرینگے تو بلوچستان کے لوگ مطمئن نہیں ہونگے ۔ اگر کسی کو خوش فہمی ہے کہ بلوچستان کے لوگ ان کے ساتھ بلوچستان کا ایک فیصد افراد بھی ان کے ساتھ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ بچوں کی برسی کے موقع پر نوجوانوں سے اپیل کی تھی کہ ان کے بہکاوے میں نہ آئے اور پہاڑوں سے اترے ۔ دو سو کے قریب کمانڈر اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آواز پر لبیک کہتے ہوئے خود قومی دائرے میں شامل کرلیا اور ہتھیار ڈال دیئے ۔ جن کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ۔را اور موساد سے پیسے لینے والے 80فیصد اپنے عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں جبکہ 20فیصد یہاں پر بھیج کر ہمارے نوجوانوں کو پہاڑوں پر گئے ہوئے ہیں ان کو ایندھن بناکر پاکستان کیخلاف استعمال کرتے ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت چاہئے جو پشتون ہے چاہئے بلوچ ہے چاہئے پنجابی ہے جو دہشتگردی کارروائیاں کررہے ہیں وہ دہشتگرد کہلائے جائیگا ۔ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا اگر یہ ایک طرف دہشتگرد ہے ایک طرف وہ لوگ ہے جو پاکستان کی بنیاد کھوکھلا کردے جس طرح ہزاروں کے حساب سے ایٹم بم تھے ۔لیکن پھر بھی اس کو تھوڑا کیا گیا ۔پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں را برا ہ راست ملوث ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب ہم نے ان حکومت بنائی تھی اس بات کی میں وضاحت کردوں کہ اس قوم پرستوں نے ہم نے اس شرط پر وزارت اعلیٰ کا منصب دیا تھا ۔کہ وہ امن وامان کو ٹھیک کرنے کے دعویدار تھے اس کو ٹھیک کرینگے ۔اور اس کے تحت ہمارا قوم پرستوں کیساتھ معاہدہ ہوا ۔ اور ہم نے مکمل پولیٹیکل سپورٹ دی اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود ہم ان کو سپورٹ کررہے ہیں ۔لیکن بلوچستان کے حالات دن بدن بد سے بتر ہوتے جارہے ہیں ۔ کوئٹہ میں آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے ہورہے ہیں اور خصوصا اندرون بلوچستان مکران ڈویژن میں بہت زیادہ حالات خراب ہے ۔فورسز کے آٹھ دس گاڑیوں کے بغیر چلنا مشکل ہے ۔