|

وقتِ اشاعت :   July 11 – 2015

کوئٹہ:  ترجمان بلوچستان نیشنل پارٹی نے نیشنل پارٹی و اتحادی جماعت کے بیک وقت پارٹی کے خلاف تواتر کے ساتھ جھوٹ پر مبنی بیانات اور حقائق کو مسخ کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل لیگ کی جانب سے بیانات سیاسی بوکھلاہٹ ، ہوس باختگی ہے مری معاہدے کے تحت اقتدار کے آخری ایام ہیں حکمران ذہنی طور پر پریشان ہیں کہ کہیں ان کا اقتدار نہ چلا جائے لیکن قوی امکان ہے کہ ان کے بوریا بستر گول ہونے جا رہا ہے اسی لئے اب من گھڑت اور غیر منطقی بیانات دے کر عوام کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں بیان میں کہا گیا کہ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کا بیرون ملک آنا اور جانا کسی کے کہنے پر ہوتا تو مالک اینڈ کمپنی اقتدار کے ایوانوں میں نہ ہوتے بلوچستان کے ہر ذی شعور سیاسی ورکر اور بلوچ فرزند بخوبی واقف ہیں کہ مستند اقتدار تک کون سی قوتوں نے پہنچایا اور کس طرح انہیں ضمیر کا سودا کرنا پڑا معاہدے مری کے آخری دنوں میں عوامی غیض و غضب سے بچاؤ کے راستے ڈھونڈنے کیلئے نیشنل پارٹی حوس باختہ ہو کر بیانات جاری کر رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ موصوف کی جماعت کی قیادت کی ذہنی صلاحیتیوں کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سردار اختر جان مینگل کے بیرون ملک رہائش کی مدت کو 7سال قرار دے رہے ہیں جو دورغ گوئی ہے ترجمان کی کم علمی اور ذہنیت پر افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ایسا ممکن نہیں پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل پارٹی فیصلوں اور حکمت عملی کے تحت ملک میں ہوں یا بیرون ملک کسی کو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے یہ پارٹی کے فیصلے ہیں جو اس کے ادارے کرتے ہیں اور پارٹی قائد بھی ان فیصلوں کے پابند ہے ترجمان نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد پارٹی نے احتجاجا پارلیمانی ممبران نے استعفیٰ دیا اس کے بعد پارٹی نے احتجاجی تحریک شروع کی اور گوادر سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا جس سے خائف ہو کر آمر حکمرانوں نے حب سے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل سمیت 1200سے زائد رہنماؤں ، کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور پارٹی قائد کو سندھ کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دی جاتی رہیں اور عرصہ دراز تک زندان میں رہے اس دوران زہر دینے اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے پارٹی قائد کی طبعیت وہاں خراب ہو تی گئی رہائی پانے کے بعد پارٹی نے حب سے لے کر کوئٹہ تک تاریخی ریلیوں ، جلسوں اور استقبالی پروگرامز جبکہ کوئٹہ میں تاریخ کا سب سے استقبال سردار اختر جان مینگل کا کیا گیا جو تاریخ کا حصہ ہے تاریخی جلسے سے انہوں نے خطاب کیابلوچستان کی آواز بلنداور حقیقی قومی جدوجہد کرنے پر پارٹی کے 82کے قریب رہنماؤں و کارکنوں کو شہید کیا گیا 28جون 2009ء کو پارٹی کونسل سیشن کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں سردار اختر جان مینگل پارٹی کے صدر اور شہید حبیب جالب بلوچ پارٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اس دوران عرصہ دراز سے سردار اختر جان مینگل بلوچستان میں موجود رہے اور مختلف اوقات میں پارٹی فیصلوں کے مطابق پارٹی قائد سے مشاورت اور رابطے کئے جاتے رہے اس میں کوئی قباعت نہیں کہ سردار اختر جان مینگل کہاں رہیں اس حوالے سے تنقید بے معنی ہے پارٹی مخالف بیانات دینے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کی توجہ بلوچستان میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے ، آپریشن ، سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ، انسانی حقوق کی پامالی ، ظلم و زیادتیاں ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور بلوچوں کے گدانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اقدامات اور بالخصوص ریکوڈک ، گوادر اور بلوچستان میں افغان مہاجرین کے انخلاء اور متوقع مردم شماری سے توجہ ہٹانے کیلئے نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ بلوچستان پارٹی کے خلاف بیانات دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں کر رہے ہیں پارٹی نے بارہا کہا ہے کہ بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل میں حکمران مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اب ان تمام مظالم برابریت ، بلوچ کش اقدامات میں نیشنل لیگ بری الذمہ نہیں کیونکہ اقتدار کے منصب پر فائز ہیں انہی کی مرضی کو منشاء کے مطابق تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں یہ برابر کے جرم دار ہیں اور ان کے ہاتھ بلوچ خون سے رنگے ہوئے ہیں کیونکہ انہی کے دور میں لاپتہ افراد کے تعداد میں اضافہ ہوا مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں آپریشن تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے بلوچ روایات کو پامال کی جا رہا ہے بلوچ نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دی جا رہی ہیں بلواسطہ یا بلاواسطہ صوبائی حکمران ان معاملات میں شریک ہیں اب وہ جتنے بھی دعوے کریں اکیسویں صدی میں عوام کو دھوکہ دینے ممکن نہیں جس طریقے سے 2013ء کے جعلی الیکشن کے ذریعے انہیں اقتدار دیا گیا اسی عیوض بڑے احسن طریقے سے حکمران جماعت من و عن اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جس سے ان کے مکروہ چہرے عوام کے سامنے اب عیاں ہو چکے ہیں جھوٹ سے کب تک عوام کو طفل تسلیاں دیتے رہیں گے اور حقائق پر مزید پردہ پوشی ممکن نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اس جماعت کی پرورش سیاسی اداروں کے چھتری تلے ہوئی ہے اگر یہ سینہ تھان کر کہیں کہ ہم بلوچستان میں رہیں لیکن پھر بھی اسلام آباد کے پالیسیوں کو آگے بڑھاتے رہیں گے اور مخبری کر کے بلوچ نوجوانوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے میں ان کے کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مکران و توتک واقعے کے ذمہ داران اور اتحادیوں کے کردار سے ہر ذی شعور بلوچ بخوبی واقف ہے ان کے پارٹی کی کوئی واضح پالیسی نہیں اسلام آباد میں بیٹھتے ہیں تو اسلام آباد کے گھن گانے سے نہیں تھکتے جب مکران بلوچستان میں آ کر قوم پرستی کا لبادہ پہننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آج تک وہ بلوچ عوام کو مطمئن نہیں کر سکے کہ کن کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ان کے مقاصد کیا ہیں ترجمان نے کہا کہ اگر واقعی ہی حکمران جماعت اپنے آپ کو متوسط طبقہ اور قوم پرستی کے دعوے کرتے ہیں صرف بلوچ عوام کو یہ بتانے کی اخلاقی جرات کریں کہ انہوں نے ڈھائی سالوں میں بلوچوں کیلئے کون سا اقدام اٹھایا جس سے بلوچ عوام کے دوکھوں کا مداوا کیا بلوچستان کے اہم ایشوز کے حوالے سے جب ان سے بات کی جائے تو یہ بے اختیار ہونے کا رونا روتے ہیں اور کچھ اسلام آباد کو یہ نوید بھی سناتے ہیں کہ تمام معاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں جبکہ ان کے تمام دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں یہ ان کی کسی حد تک بات درست ہے کہ ریڈ زون تک امن و امان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہے لیکن پورے بلوچستان میں سرکار کی رٹ تو درکنار حکمران خود اپنے علاقوں تک جانے میں بے بس ہیں کبھی گئے بھی تو فول پروف سیکورٹی کے بغیر جانا ممکن نہیں ترجمان نے کہا کہ اسی طریقے سے بلوچستان کے دیگر سیاسی معاملات میں صوبائی حکومت اپنے اتحادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد دانش گاہوں کے تمام اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی تمام معاملات گورنر بلوچستان چلا رہے ہیں درسگاہوں کے سربراہ کی تعیناتی بھی کر رہے ہیں جبکہ نام نہاد قوم پرست دعوؤں کے حد تک فعل و متحرک دکھائی دیتے ہیں ترقی و خوشحالی کے دعویدار کیا یہ بتانے کی جرات کریں گے کیا موجودہ دور حکومت میں بلوچ مفادات کیلئے کتنے اجتماعی کام کئے گئے جس سے ان کی سماجی زندگی اور ترقی ممکن ہو سکے جبکہ آج ہر ذی شعور بلوچ طبقہ فکر موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ہم ان کے کارناموں کے بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں ان کے عمل و کردار سے بلوچ فرزندان بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ترجمان نے کہا کہ ترقی صرف اس بات کی ہوئی ہے کہ موجودہ دور میں حکمران و ان کے اتحادیوں نے کوئٹہ کے اہم قیمتی املاک کو لیز پر لے کر اپنے ناموں پر کرا لیا اور کوڑیوں کے چند ہزاروں روپوں کے ٹیکس ادا کئے گئے اور کروڑوں روپے کے زمینوں پر قابض ہوئے اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں املاک کو لیز پر لینے کا سلسلہ جاری ہے عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکنا جا سکتا موجودہ دور حکومت میں تعلیمی نظام مزید ابتری کی جانب رواں دواں ہے ترجمان نے کہا کہ حکمران عوام کی خدمت سے زیادہ اپنی خدمت میں مصروف ضرور دکھائی دیتے ہیں بیان میں کہا گیا کہ ایسے تحریر ، تقاریر ، بیانات دورغ گوئی سے معاملات کبھی بھی درستگی کی جانب نہیں جا سکتے آج بلوچ عوام بخوبی واقف ہیں کہ ان کے قومی مفادات کو کس طریقے سے ٹھیس پہنچایا جا رہا ہے گروہی ، ذاتی مفادات کی تکمیل بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے پارٹی کے تنظیم کاری کے متعلق سرکاری جماعت کو بتاتے چلیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی عبوری آرگنائزنگ کمیٹی کے دور میں بلوچستان بھر میں تنظیم کاری کا مرحلہ اپنے آخری مراحل میں ہے پارٹی کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جا رہا ہے پارٹی فعال اور متحرک ہے اور مختلف اضلاع میں ضلعی کنونشن بھی کامیابی سے منعقد کرائے گئے ہم انہیں کہنا چاہیں گے کہ 2013ء کے الیکشن اور بلدیاتی انتخابات میں سرکاری مشینری کے بے جا استعمال کے باوجود عوام نے پارٹی کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو ہمارے لئے قابل ستائش ہے بلوچوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بی این پی ہے فراڈ میں پارٹی کا راستہ روکنے کے باوجود آج بھی پارٹی کا ووٹ بینک جو لاکھوں میں ہے اور حکمران جماعت کے ووٹوں سے بھی زیادہ ہے اس سے ان کی مقبولیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے یاد رہے کہ پارٹی نے 2014ء میں نوشکی ، دالبندین ، گوادر ، کوئٹہ ، قلات ، خضدار ، وڈھ سمیت دیگر علاقوں میں جلسے کئے جہاں پارٹی قائدین کا تاریخی استقبال کیا گیا اگر دیکھنا چاہیں تو ان دنوں کے اخبارات اور ویڈیوز ملاحظہ کی جا سکتیں ہیں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ پارٹی جلسے فرضی ہیں یا کہ حقیقت پر مبنی ہیں اس سے پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ہم ضرورت ان کے کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں حکمرانی کے باوجود حکمران جماعت کا قومی کونسل سیشن جو سرینا ہوٹل تک محدود تھا جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کوئٹہ شہر میں آویزاں کئے جانے والے پوسٹروں پر جلسے کے مقام کی نشاندہی نہیں کی گئی اور نہ ہی جلسہ عام منعقد کیا گیا صرف مرکزی کونسلروں تک ان کی عوامی قوت محدود رہی ترجمان نے کہا کہ پارٹی کا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہے حکمران جماعت کی طرح پارٹی پالیسیوں میں کوئی کنفیوژن نہیں بلوچ قومی مفادات اور تاریخی سرزمین کی زبان ، ثقافت ، تاریخ و تمدن کے بقاء اور بلوچستان کے وسیع تر مفادات کیلئے پارٹی کی پالیسیاں ، قیادت کا کردار و عمل واضح ہیں اسی اصولی واضح موقف کے پاداش میں پارٹی شہیدوں کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے اور ہر دلعزیز جماعت کی شکل اختیار کر چکی ہے پارٹی ترقی پسند ، روشن خیال انسان دوست جماعت ہے اور ہم نے ہمیشہ بلوچ پشتون دائمی رواداری کی سیاست کو فروغ دیا لیکن یہ امر بھی واضح کرتے چلیں کہ بلوچستان کے عوام خود اس بات کی گواہی دیں کہ ان لوگوں کو کبھی برداشت نہیں کریں گے جو بلوچستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور 40لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں مہاجرین کے آباد کاری کرنے والوں کے خلاف اصولی و سیاسی جمہوری انداز میں مخالفت جاری رہے گی جو ہمیں اپنے ہی تاریخی وطن میں لاکھوں مہاجرین کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں موجودہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں ان کی معاونت بھی کر رہے ہیں اسی لئے مرکزی و دیگر صوبائی حکومتوں نے مہاجرین کے انخلاء کے متعلق پالیسی واضح کر دی ہے لیکن نیشنل لیگ اور اس کے اتحادی جماعت مہاجرین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے جو تاریخی دیانتی کے مترادف ہے ۔