جنیوا: بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے قائد نواب براہمدغ بگٹی نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں فورسز کی کاروائیوں میں مزید شدت لائی جارہی ہے آواران سے لے کر پنجگور، ڈیرہ بگٹی، مستونگ سمیت بلوچ سرزمین کے کونے کونے میں بے گناہ بلوچوں کو پکڑ کے گولیوں سے چھلنی کرنا اور مزاحمتکار قرار دینا بلوچ قوم کے خلاف اپنی درندگی کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے اور بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنیوں اور ممالک خاص کرچین کو یہ باور کرانا ہے کہ ریاست ان کا راستہ صاف کررہی ہے تاکہ وہ آئیں اور مل کر بلوچ وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں انھوں نے کہا کہ 2010ئسے لاپتہ اسیران کی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ اِس عمل میں مزید شدت لائی جا رہی ہے جس کی ذمہ دار پاکستانی ریاست اور اسکی فورسز ہیں لیکن ان تمام مظالم کے باوجود بلوچ قوم کو ان کی حقوق کی جدوجہد اور سوچِ آزادی سے دستبردار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قومی وسائل کی لوٹ مار برقرار رکھنے کے لیے بلوچستان میں کرپٹ اور بد عنوان لوگوں پر مشتمل محدود اور کٹ پتلی حکومتیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ ان لوگوں کوبلوچ قومی معاملات پر مداخلت تو دور کی بات محض سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ مہذب دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ بلوچستان میں ایک منتخب حکومت ہے اور وہ لوگوں کی نمائندگی کر رہی ہے لیکن یہ لوگ بطور کٹھ پتلی استعمال کیے جارہے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں پر بھی بیرونی طاقتوں نے کسی سرزمین پر قبضہ کیا اور وہاں کے وسائل کو لْوٹا گیا تو وہاں اس طرز کی حکومتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ نواب براہمداغ بگٹی نے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کی حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ناصر جنجوعہ کا یہ بیان کہ بلوچ قومی آزادی کی پانچویں تحریک شکست کھاچکی ہے اور ختم ہونے جارہی ہے اپنے ہی لوگوں کو دھوکا دینے اور خود کو خوش کرنے والی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2004 سے جب یہ آپریشن شروع ہوا اسی دن سے یہ جرنلز اور ان کے نمائندے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچ مزاحمت صرف دو تحصیلوں تک محدود ہے اور 2005 سے ہر ہفتے وہ چالیس پچاس لوگوں کے سرینڈر ہونے کا دعوی کرتے آرہے ہیں۔ ان کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ کبھی آکے بلوچستان میں بلوچوں سے معافی مانگتے ہیں اور کبھی بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ کبھی شرپسند کہ کر جڑ سے اکھاڑنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی ہمیں ناراض بھائی کہا جاتا ہے اور منانے کی کوششوں کا دعوی کیا جاتا ہے۔ بلوچوں کے سیاسی اور پرامن تحریک سے اتنا خوفزدہ ہونا کہ انکی آواز کو دبانے کیلئے انھیں اٹھاکر شہید کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ کراچی اور لاہور میں اپنے ہی تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے بارے میں بحث و مباحثے یا لیکچر دینے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ کسی کوسوئی اور ڈیرہ بگٹی داخل ہونے سے پہلے دس پندرہ جگہوں پر فورسز کے پاس انٹری کروانی پڑتی ہے اور ڈیرہ بگٹی شہر پہنچنے تک پچیس سے تیس جگہوں پر روکا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ڈیرہ بگٹی مریستان، مکران وہ علاقے ہیں جہاں آج تک میڈیا نہیں جاسکتی اور اس کے علاوہ پاکستانی اینکرز کو بلوچستان پر بات کرنے کی، خبریں دینے کی اور بحث و مباحثہ کی حد تک بھی پابندی ہے تو اب اگر ان تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس پس منظر میں جنرل جنجوعہ صاحب خود اندازہ لگائیں کہ کون شکست خوردہ ہے اور کون ذہنی طور پر شکست کھاچکا ہے۔ جرنل مشرف نے بھی آسمان میں مْکے گھماتے ہوئے کہا تھا کہ میں بلوچ قوم کو اور بلوچ تحریک کو ختم کر کے دم لونگا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ان کے بعد جنرل کیانی نے بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں تیزی لائی لیکن اس کے باوجود بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا اور بلوچ تحریک کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے۔ اب جنرل راحیل شریف صاحب اور انکے نمائندے بھی ایسے ہی غیرسنجیدہ اور غیرسیاسی باتیں کررہے ہیں۔ ہم یہ بات واضع کردیں کہ بلوچ ایک پرامن اور مہذب قوم ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہرمسئلے کا حل سیاسی اور پرامن طریقے سے نکالا جاسکتا ہے اور نکالا جانا چاہئے لیکن ہمارے اس بات کو ہماری کمزوری سمجھا جائے تو یہ ان کی غلط فہمی ہوگی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بزور طاقت، قتل غارت اور دہشتگردی کی کاروائیوں سے بلوچ تحریک کو دبایا یا بلوچ قوم کو ختم کیا جاسکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہم ان حکمرانوں کومخلص مشورہ دیتے ہیں کہ دو ہزار کے عشرے سے لیکر اب تک چلنے والی فوجی آپریشن پر نظر ڈالیں اور اس کے نتائج کا جائزہ لیں اور نوشتہ دیوار پڑھ کر اپنی شکست کو قبول کریں اور بلوچ مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے میز پر آئیں۔ بی آرپی سربراہ نے میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی صحافی کہتے ہیں کہ بلوچوں سے مزاکرات کرواگر کوئی مزاکرات نہیں کرتا تو اس کے سر پر آٹھ گولیا مار دو۔ کیا مہذب قوموں میں آزاد صحافت اس کو کہتے ہیں اور کیا ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جہاں بلوچ قوم کو ان کے اپنے ہی سرزمین اور وسائل سے محروم رکھ کر انہیں لوٹا جائے ان کے سیاسی اقابرین کو چْن چْن کے مارا جائے ان کی لاشوں کو مسخ کر کے پھینکا جائے بلوچستان پر محض بات کرنے پر صحافیوں کو گولیاں مار دی جاتی ہے جس کی واضح اور زندہ مثال حامد میر ہے۔ بلوچستان پر صرف ایک پروگرام منعقد کرنے پر سماجی کارکن سبین محمود کو سرعام قتل کر دیا گیا اور بلوچستان کے حالات پر یونیورسٹیوں میں بات کرنے تک پابندیوں کے پیغامات بھی براہ راست خفیہ ادارے کی طرف سے آتے ہو پھر بھی اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ یہ اینکر پرسن آکر پورا کر دے اور ڈال دے آٹھ گولیاں بلوچستان کے ہر شخص کے سر میں لیکن اگر فوج یا حکومت مزاکرات نہ کریں تو کیا یہ صحافی فوجیوں اور حکومتی نمائدگان کے سروں میں بھی آٹھ آٹھ گولیاں اتار دینے کی بات کریں گے۔ انہوں نے نواز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بلوچ قوم میں بگٹی قبائل بہت غزیز ہے اور مجھے بگٹی قبائل سے محبت ہے اگر نواز شریف کی محبت کا انداز یہ ہے جہاں حق کی بات بولنے پر دوسرے دن اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی جائے تو ان کی دشمنی کا عالم کیا ہوگا۔ نواب براہمداغ بگٹی نے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کو سیاسی لوگوں میں نااتفاقی سے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ہر تحریک میں اختلافات ہوتے ہیں جو سیاسی طریقے سے حل کیے جاتے ہیں۔ بلوچ سرزمین کیلئے جدوجہد کرنے والے جماعتیں اور کارکنان اگر قومی آجوئی کیلئے اپنے جان کی قربانی دے سکتے ہیں تو اپنے اختلافات بھلا کر متحد بھی ہوسکتے ہیں۔ بی آر پی تمام سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے اور ایک متحد پلیٹ فارم کیلئے کوشاں ہے۔ انھوں نے بی این پی سے اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سے ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا بی آر پی بلوچستان میں موجود دیگر تنظیموں سے بھی مل کر کام کرتی ہے تو اس کے جواب میں ہم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا بی آرپی ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کا مسلح تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہے البتہ بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں سے تعاون کرتی ہے اور ان سے اتحاد کی جانب بھی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ بلوچ قومی آجوئی کے نقطے پر بی آر پی سے ہم آہنگ ہوں۔ جہاں تک بی این پی کے سیاسی موقف کا تعلق ہے تو ایسے میں بی آرپی کا اس سے اتحاد کرنا ناممکن ہے۔ اگر کل کو بی این پی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنا موجودہ رویہ ترک کرکے بلوچ تحریک آزادی میں شمولیت کا اعلان کرے تو اس سے اتحاد کیا جاسکتا ہے جو کہ جہدآجوئی کیلئے بہت مفید ہے۔ بلوچ قومی رہنما نے کہا کہ کچھ لوگ مسلسل دانستہ یا غیردانستہ طور پر قومی جدوجہد میں غیرضروری ابہام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا فائدہ صرف اور صرف ریاست کو ہورہا ہے۔ بلوچ قوم سے درخواست ہے ایسے لوگوں کی منفی پروپگنڈے کی وجہ سے مایوس ہونے کی بجائے تحریک کو مزید فعال اور منظم کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ انھوں نے بی آر پی کارکنان کو ہدایت کی کہ منفی پروپگنڈوں میں الجھنے سے گریز کریں اور ریاست کی جانب سے بلوچ تحریک کو درپیش مشکلات کے حل کیلئے عملی کردار ادا کریں۔