|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کو فوری طورپر بحال کیا جائے تاکہ ہم مریضوں ،غریب طلباء کی مدد کرسکیں بیورو کریسی کے مقابلے میں منتخب نمائندے بہتر انداز میں اس فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنا سکتے ہیں ان خیالات کا اظہار ارکان اسمبلی نے اجلاس کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پراظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارت وال نے کہا ہے کہ 1500روپے اسکالر شپ دیکر صوبائی حکومت کسی کو بھکاری نہیں بنا رہی بلکہ یہ طلباء کا حق ہے۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تواسوقت110روپے اسکالرشپ تھی جبکہ اب صوبائی حکومت نے اس رقم میں اضافہ کرتے ہوئے 1500روپے کردیا ہے جبکہ پہلے چند پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو اسکالرشپ ملتی تھی اب حکومت نے فرسٹ ڈؤیژن حاصل کرنے والے طلباء کو یہ اسکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتوں کی بہتر چیزوں کو کہیں دنیا میں نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ اگر کہیں کوئی خالی یا غلطی ہو تواسکو اجاگر کیا جاتا ہے اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو ہم بھی اسکی تصحیح کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ایک پالیسی پر عمل کر رہی ہے اگر اس پالیسی پر کسی کو اعتراض ہے تواس پر بات ہوسکتی ہے گزشتہ دو سال کے دوران کچھ فنڈز لیپس ہوئے تھے جس کے بعد صوبائی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ فنڈز کے بروقت استعمال کو یقینی بنایا جائے گاحکومتی اقدامات ریکارڈز پر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈ ی ڈی پی کے حوالے سے عدالت کی جانب سے فیصلہ آیا ہے جس پر ہم نظرثانی کیلئے عدالت جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی صوبے کا سب سے بڑااور مقدم ادارہ ہے جو قانون سازی کرتا ہے جبکہ عدالت قانون کی وضاحت کرتی ہے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرتے ہیں آئین میں مقننہ کو پہلاعدلیہ کو دوسرا جبکہ انتظامیہ کو تیسرا مقام حاصل ہے مقننہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون سازی کرے اوراگر پالیسیوں میں کوئی خامی ہو تواس پربات کی جاسکتی ہے جبکہ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے اسمبلی کی قانون سازی کو اسمبلی کے بغیر کوئی تبدیل نہیں کرسکتابلوچستان اسمبلی پورے صوبے کا نمائندہ ایوا ن ہے اوراسکی قانون سازی اور کارروائی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہم جمہوری لوگ ہیں اور آئین کے پابند ہیں اورچاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنے اختیارات کے مطابق کام کریں ہم کسی سے کوئی ٹکراؤ نہیں چاہتے ڈی ڈی پی کے حوالے سے عدالت میں ریویژن کیلئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں مگر ہم نے ابتک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اوراگر آئندہ بھی نہ کیا تو مسائل بڑھ جائیں گے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور ہم اپنے عوام کو جوابدہ ہیں عوام کو ایک ایک پائی کا حساب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر اسکالرشپ کے حوالے سے یہ تاثردیا گیا کہ حکومت کسی کو بھکاری بنانا چاہتی ہے یہ بات بالکل غلط ہے اسکالرشپ یہاں کے طلباء کا حق ہے ۔انہو ں نے کہا کہ ہم عوام کے مفاد میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے جس چیز کو عوام کیلئے ٹھیک سمجھیں گے اسے آگے بڑھائیں گے اور جو غلط ہوگا اسے روکیں گے ۔انہوں نے کہا کہ مون سون سے صوبے کے بعض اضلاع میں نقصانات ہوئے ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے جہاں جہا ں نقصانات ہوئے ہیں فوری ازالے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ مزید اقدامات بھی کئے جائیں گے۔پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی لیاقت آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پرکہا کہ تمام ممبران کو پبلک ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ساڑھے 3کروڑ روپے مل رہے تھے کہ اس دوران ہائیکورٹ میں کیس ہوا کورٹ فیصلے میں یہ ذکر کہیں نہیں ہوا کہ ڈی ڈی پی فنڈز کو ایم پی ایز کے ذریعے تقسیم نہ کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں 4کالجز ماڈل اسکول ہے اور مختلف علاقوں میں کھیلوں کے مقابلے ہورہے ہیں لوگ ہمیں بلارہے ہیں تاکہ ہم انہیں فنڈز دیں لیکن ہمارے پاس کچھ نہیں لوگوں کی امیدیں زیادہ ہیں لیکن ہم انکی امیدوں پور ا نہیں اتر سکتے لہذا گزارش ہے کہ فوری طور پر اس فنڈ کو ریلیز کیا جائے تاکہ ہم بیمار افراد ،طلباء کی مدد کرسکیں۔صوبائی وزیرڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ ڈی ڈی پی کے حوالے سے صوبائی وزیرعبدالرحیم زیارت وال نے وضاحت کردی ہے کہ صوبائی حکومت ریویژن میں جارہی ہے لہذا اس پر مزید بات نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ اس حوالے سے کچھ غلط فہیماں بھی ہیں دیگر ممبران کی طرح مجھے بھی ہیلتھ اور سکالرشپ کی مد میں فنڈز کی ضرورت ہے لیکن کورٹ نے کہا ہے کہ فنڈز ایم پی ایز کے ذریعے تقسیم نہیں ہونا چاہے باہر کے کسی بندے نے کورٹ میں کیس داخل کیا ہم نے حکومتی پالیسی کے مطابق اسکا دفاع کیا ہے۔ رکن اسمبلی غلام دستگیربادینی نے کہا کہ ڈی ڈی پی فنڈکی بحالی انتہائی ضروری ہے ہم عوام کو اس حوالے سے ایک ایک پائی کا حساب دینے کیلئے تیار ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک ڈی سی منتخب ممبر کے مقابلے میں کس طرح اس فنڈز کی تقسیم میں شفافیت لاسکتا ہے بڑی تعداد میں لوگ کینسر کے مریض ہیں اسکے علاوہ یونیورسٹی میں پڑنے والے بچوں کو اسکالر شپ دینا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کورٹ نے کوئی قدغن بھی لگائی ہے تو ایم پی اے کی بجائے ایجوکیشن اور ہیلتھ کی کمیٹیاں بناکر اس فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے عبیداللہ بابت نے کہا کہ ڈی ڈی پی فنڈ کو بحال کیا جائے ہم عوام کو جواب دہ ہیں اس فنڈز کے ذریعے ہم غریب طلباء اور مریضوں کی مدد کرسکتے ہیں مولانا صاحب نے جو بیان دیا تھا کہ 1500سکالر شپ سے طلباء بھکاری بن جائیں گے افسوسناک ہے اس فنڈ سے غریب لوگوں کی اچھی خاصی مدد ہوسکتی ہے۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے توا س وقت ہمیں 110روپے مل رہے تھے اب 1500روپے کافی ہے مولانا صاحب بہت امیر ہوگئے ہیں وہ اب ڈالروں میں باتیں کر رہے ہیں جبکہ غریبوں کی ضروریات کچھ اور ہیں۔رکن اسمبلی حسن بانو رخشانی نے کہا کہ ہمیں اپنی غربت پر فخر ہے 1500روپے نہ ہونے کے برابر ہیں ممبران اپنے بچوں کو نظر میں رکھ کر غریب لوگوں کی مدد کریں انکے بچوں کا خرچہ دن میں 1500روپے ہے مولانا صاحب پیسٹری نہیں کھارہے کیونکہ وہ شوگر کے مریض ہیں۔رکن اسمبلی منظورکاکڑ نے کہا کہ ڈی ڈی پی فنڈ کا بحال ہونا ضروری ہے اس فنڈز کو ایم پی ایز کے ذریعے ہی تقسیم ہونا چاہئے ایک منتخب رکن ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے مقابلے میں زیادہ شفاف طریقے سے اس فنڈ کو تقسیم کرسکتا ہے۔