کراچی: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کراچی دھمگ کی جانب سے شہید حاجی عبدالرزاق بلوچ کی دو سری برسی اور شہدائے اگست کے مناسبت سے ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔شہدائے اگست اور شہید حاجی رزاق بلوچ کو سرخ سلام پیش کرنے کے ساتھ انکی تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی اور انکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مقررین نے مقالمے پڑھے۔ریفرنس کے آخر میں بی این ایم کے مرکزی چےئرمین خلیل بلوچ کا پیغام بھی پڑھا گیا۔بی این ایم کراچی کے نائب صدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حاجی رزاق بلوچ کی زندگی اورشہادت ایک کھلے کتاب کی مانند ہیں۔وہ اپنی عمل و لگن سے ان بلندیوں کو پہنچ گئے جس کا اندازہ ہر کوئی ان کی محنت، کارکردگی اور تعلیمات سے بہ آسانی لگا سکتا ہے۔کراچی جیسے شہر اور لیاری و ملیر و دیگر بلوچ آبادیوں میں ان مشکل حالات کے باوجود حاجی رزاق نے ایک فکری کامریڈ کی تمام ذمہ داریاں نبھائیں اوربلوچ نیشنلزم کا پرچار کرتے رہے۔ وہ تاآخری دم اپنی پاک کردار کو تھامے شہید ہو گئے۔اجلاس سے کراچی دھمگ کے جنرل سیکریٹری بانک بختاور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں اور مجھ جیسی سینکڑوں بیٹیاں بلوچ قومی جہد سے واقفیت اگر رکھتی ہیں تو وہ میرے عظیم لیڈر حاجی رزاق بلوچ کی تعلیمات کا مرہون منت ہے۔اگست کے مہینے میں بے شمار بلوچ فرزندوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،نواب اکبر خان بگٹی نے پیراں سالی میں موت کو اس لیے گلے لگایا کہ بلوچ کی آنے والی نسل دشمن کو للکار سکے اور اپنی قومی تشخص کا دفاع کر سکے،اسی طرح شہید امداد ،شہید رضا،شہید آصف،رسول بخش مینگل ،ڈاکٹر خالد،دلجان،الطاف بلوچ سمیت سینکڑوں فرزندوں نے اسی ماہ جام شہادت نوش کی ۔آج ضرورت ہے کہ ہم قومی آزادی کی جہد میں علمی طور پر لٹریچر پر زیادہ کام کریں تاکہ ہم اپنے نوجوانوں میں غلامی کے شعوری معنی اور آزادی کے فکری جہد کو پروان چڑھا سکیں۔بقول شہید حاجی رزاق کے ایک کامریڈ کو تشدد اور موت ختم نہیں کر سکتی بلکہ وہاں سے اسکی زندگی کا حاصل شروع ہو جاتا ہے۔مقررین نے شہدائے اگست کو سرخ سلام پیش کیا۔آخر میں بانک بختاور بلوچ نے چےئرمیں خلیل بلوچ کا پیغام پڑھ کر سنایا۔جس میں انہوں نے تمام شہدا کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دیوان عظیم کامریڈ رہنما شہید حاجی رزاق بلوچ کی شہادت کے سال روچ و شہدائے اگست کی مناسبت سے ترتیب دیا گیا۔میں اس پیش نظر لال سلام پیش کرتا ہوں اس فرزند کو جس نے کراچی سے لے کر مقبوضہ بلوچستان کے کونے کو نے تک انقلاب کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا،جی ہاں حاجی رزاق بلوچ کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کراچی وہ شہر جہاں میرئے قائد شہیدواجہ غلام محمد بلوچ نے بلا خوف نعرہ انقلاب بلند کیا تو آپ میں سے کئی ساتھی انکے ساتھ ہو لیے،حاجی رزاق بلوچ ان صف اول کے دوستوں میں تھے جنہوں نے بی این ایم کے قائد کے انقلابی نعرہ کو جان بخشنے میں اپنی پوری قوت صرف کی اور پارٹی سے منسلک ہو گئے،اپنی انسان دوست اور قوم دوست نظریہ کے ساتھ وہ عملی میدان میں خود سراپا انقلاب بن گئے اور بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے فکر و نظریہ،آزاد بلوچستان کے فکری و شعوری جدوجہد کو کراچی کے ساتھ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں پھیلاتے رہے۔کراچی میں مقیم بلوچ قوم نے بلوچستان کی آواز پر قومی پکار کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔چیئر مین خلیل بلوچ نے کہا کہ انقلاب قربانی کا نام ہے،عمل کا نام ،جستجو و مستقل مزاجی کا نام ہے،اگر میں یہ کہوں کہ انقلاب حاجی رزاق جیسے عظیم جہد کاروں کا نام ہے تو ہر گز مبالغہ نہ ہو گا،اس لیے کہ وہ خود میں بھر پور تھے،مکمل تھے،دیوانہ تھے اپنی فکر و جستجو کا وہ خود عاشق تھا اور یہی عشق انکو امر کر گیا۔شہید حاجی عبدالرزاق بلوچ نے بی این ایم میں سیاسی کارکن سے رہنما کا سفر اپنی قابلیت اور جستجو سے حاصل کیا اور انکی قربانی آج میرئے لیے طاقت اور رہنمائی کا باعث ہے ،پارٹی کے چےئرمین شپ کی قوی ذمہ داری شہید ساتھیوں اور آپ کارکنوں و رہنماؤں کی جستجو کا حاصل ہے اور بی این ایم کا وجود اسکے ورکروں کی وجہ سے ہے۔اپنے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہموت اٹل ہے،وہ حادثاتی وآفاقی ہو سکتی ہے ،مگر انقلاب ،قومی آگاہی و اپنی شناخت و پہچان کے لیے قربان ہونے والے فرزند امر ہوتے ہیں،آج اگست کا مہینہ خون آلود ہے،اس ماہ شہید نواب اکبر خان بگٹی نے جس بہادری سے دشمن کا سامنا کیا اور شہید ہوئے اس کی مثال شاید ہی تاریخ میں ملے ،اسی طرح کیچ کے جلسے میں شہید الطاف بلوچ نے جس طرح ریاستی گولیوں کو ہنستے ہوئے آزاد بلوچستان کا شکل دیا وہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں،شہید خالد بلوچ،دل جان کی شہادت نے بلوچ تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ کیا کہ اگست آج تک قربانی دیتے آ رہا ہے،شہید رسول بخش مینگل ،شہید امدادبجیر،شہید رضا جہانگیر سمیت درجنوں سیاسی کارکنوں و رہنماؤں نے اپنی جانوں کا نذارنہ اس لیے پیش کیا کہ ہم اور آپ کی مستقبل روشن ہو ،ہمارے آنے والی نسلوں کی مستقبل روشن ہو، ہم غلامی سے چھٹکارہ پا سکیں۔ آخر میں انہوں نے کہاکہ عمل ہی جہد کا نام ہے،اور تنظیم کے آئین کا پابند ہوکر قومی فریضہ کو ادا کرنے والوں میں شہید حاجی عبدالرزاق بلوچ ان صف اول کے لیڈورں میں سے ایک تھے جب اسی کراچی میں پارٹی میں ایک انتشاری کیفیت چنداں لوگوں نے پھیلایا تو حاجی صاحب وہ عملی انسان تھے جس نے اپنے بیوی ،بچوں،خاندان والوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے تعین کردہ راستے کا انتخاب کیا اور اس پر چل پڑے ،انکی شہادت بھی اسی جنون کا نتیجہ ہے،مگر فورسز و انکی علاقائی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں اغوا کے بعد ہمارے ایک دوست نے کہا کہ کراچی میں دوستوں کو کہیں کہ اپنے آپ کو محفوظ کر لیں ،حاجی لاپتہ ہو چکا ہے۔میرا جواب یہی تھا کہ روزی جان کو انکے نظریہ سے موت بھی نہیں ہٹا سکتا ہے، سانس نکل جائے گی مگر عشق سے (وطن،نظریہ اس کا عشق تھا)بے وفائی نہیں کر سکتا۔ آج ہم سب آپ کے سامنے ہیں۔پارٹی کے کارکنوں ،رہنماؤں سے یہی گزارش ہے کہ شہیدوں کو انکی قربانیوں و انکی تعلیمات کو پڑھیں۔انکے عملی کردار کو جانچیں اور قومی جہد میں اپنا کردار بڑی احتیاط سے ادا کر یں اس لیے کہ فورسز اب ہماری صفوں میں گھسنے کی کوشش کے ساتھ اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔اس کے لیے تمام جہد کاروں کو بڑی ذمہ داری کے ساتھ اپنے کردار کو ادا کرنا پڑے گا۔آخر میں کراچی دھمگ کی پوری کابینہ اور تمام ساتھیوں کی کوششوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ کٹھن حالات میں بھی وقتاً فوقتاً پروگرام کرتے ہیں۔شہیدوں کی یاد میں پروگراموں کے انعقاد کا مقصد علمی و تربیتی ہونا چائیے اور عملی میدان میں ہر جہد کار کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے پھر جا کر ہم شہید حاجی رزاق جان کی شہادت کو عملی سلام اور خراج عقیدت پیش کر سکیں گے۔