کوئٹہ/نیویارک : جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وطن عزیز کے لوگوں بدست گریبان کریں گے اغیار وقتی طور پر تو ہمیں مشکلات سے دو چار کرسکتے ہیں لیکن مستقل طور پر نہیں بدقسمتی رہی ہے کہ صوبے میں ایسے روایات کی راہ ہموار ہونے کوشش کی جارہی ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وزیر بنائے اور مراعات دی جائے تو وہ قومی دھارے میں لوگ شامل ہو نہیں تو وہ ریاست مخالف سوچ رک?ے بلوچستان کے لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن کچھ لوگوں ریاست اور عوام کے درمیان مسائل کو الجھن کا شکار کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں قوم دوست سے کہتے ہیں کہ ایسے روایات کو فروغ نہ دے یہ بات انہوں نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی‘انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں جس قدر انکو بنانے کی کوششیں ہورہی ہے صوبے میں بعض لوگ اقتدار کے حصول کی خاطر نہیں چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن و امان قائم ہو کیونکہ وہ اس کے آڑ میں وہ تو اقتدار کو طول دے رہے ہیں یا پھر اس کو اقتدار حصول کیلئے یقینی بنائے بلوچستان کے عوام پاکستان سے اپنا انٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں پاکستان اور بلوچستان لازم و ملزوم ہیں لیکن کچھ ماضی کی تلخیوں نے وہاں پر کچھ دوستوں کو ناراض کر دیا ہے جس کیلئے اگر سیاسی قیادت ملخص ہو تو عین ممکن ہے کہ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو جائے اور ناراضگییاں ختم کر کے ناراض بلوچ واپس قومی دھارے شامل ہوجائے اس وقت صوبے میں وزیراعلیٰ مختلف تقاریب میں کہتے نظر آتے ہیں کہ انکو ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا مکمل مینڈیٹ مرکزی سیاسی و فوجی قیادت نے دے رکھا تھا لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ نے اس مسلئے کو حل کرنے کی وہ کوشش نہیں کی جس کا تقاضا اس سے حب الوطنی کر رہا تھا بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس مسئلے کو اس اہمیت سے نہیں اٹھایا گیا تھا جس سے یہ مسئلہ حل ہوں انہوں نے کہا کہ وہ وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں وطن میں قیام امن کیلئے ہر وہ قربانی دینے کیلئے تیار ہے کہ جس سے وطن عزیز میں امن و امان کا قیام ممکن ہوں اس ڈھائی سال کے عرصے میں اور خصوصاً اگر حکومت کے شروع کے ایام میں وزیراعلیٰ انکو کہتے کہ وہ مزاحمت کاروں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور انکا ان کے ساتھ بحیثیت اپوزیشن لیڈر ہونا ضروری ہے تو وہ موجودہ حکومت سے سیاسی اختلافات کے باوجود وطن کی خاطر خود کو پیش کرتے تھے لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور حکومت کے خاتمے کے دن نزدیک آتے دیکھ کر اس مسلئے کی حل کیلئے کام شروع کردیا تھا جس سے انکی نظر میں حب الوطنی کے بجائے حب الکرسی تھا انہوں نے کہا کہ وہ دنیا کے ممالک دیکھ آئے ہیں لیکن انہوں دنیا کہ کسی کونے میں پاکستان جیسا پیارا ملک نہیں دیکھا ہے جہاں بے پناہ خلوص محبت اور پیار کرنے والے لوگ موجود ہیں جو کے دنیا کی کسی ملک میں نہیں تاہم اس بات کا اندازہ اس وقت انکو ہو جاتا ہے جب وہ وطن سے دور آتے ہیں