کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی کے بیان کے پیچھے دوستوں کا مشورہ شامل ہے پرویز مشرف کو نواب اکبر بگٹی کا قاتل سمجھتا ہوں بلوچستان میں آنے والے بریک تھرو میں سیاسی و فوجی مشاورت شامل ہے منفی سوچ کو مثبت سوچ سے ختم کرنے کا قائل ہوں بندوق سے مارنا ایک عمل ہے پالیسی ہر گز نہیں اب تک میں نے اپنا سیکریٹ فنڈ نہیں لیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے یہاں پہلے بھی مزاحمت ہوئی مگر اس وقت ہمارے بڑے موجود تھے جو بیٹھ کر بات بھی کرسکتے تھے اور لڑ بھی سکتے تھے نوابزادہ براہمدغ کا فیصلہ خوش آئند ہے اور اس بیان کے پیچھے دوستوں کی مشاورت شامل ہے بلوچستان میں سیاسی و فوجی مشترکہ لائحہ عمل سے بریک تھرو آیا ہے ہماری کوشش ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں جلد از جلد مذاکرات کا عمل شروع کریں ہم براہمدغ بگٹی کی شرائط کو قابل قبول بنانے کی کوشش کررہے ہیں نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد براہمدغ بگٹی کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں تھا مگر ہم سیاسی لوگ ہیں اور بلوچستان کے مسئلہ کو سیاسی انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کے قاتل کون ہیں یہ سب جانتے ہیں ان کو سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں یہ دوسرا پہلو ہے میں پرویز مشرف کو نواب اکبر خان بگٹی کا قاتل سمجھتا ہوں تاہم اب ہمیں بلوچستان میں امن استحکام ترقی و خوشحالی کیلئے آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ بلوچستان کی بربادی میں بے شمار لوگ جان گنوا بیٹھے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں گرنے کے واقعات میں بہت کمی آئی ہے ہم کنفلکٹ زون میں رہتے ہیں اور حالات کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے یہاں مزاحمت کو ختم کرنا ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ریاست کو مارے اور ریاست اسے نا مارے بلوچ کی جب تک محرومی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اہم اشوز پر انہیں ان بورڈ نہیں لیا جاتا مسائل کا مستقل حل ممکن نہیں اگر آج محرومیاں ختم نہ کی گئیں تو کل کوئی اور اٹھ کھڑا ہوگا وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی مثبت پالیسیاں مرتب کرے جس کے دورس نتائج برآمد ہوں وقت اور حالات کے متقاًضی ہیں کہ اب سنجیدگی سے ان مسائل کی جانب دیکھنا ہوگا محرومیوں کے خاتمے کیلئے بلوچستان کے وسائل صوبہ کے عوام کے حوالے کردیئے جائیں تو محرومیوں کا تاثر ختم کیا جاسکتا ہے اگر ریموڈک سمیت دیگر منصوبوں کو فروخت کر دیا جاتا تو یہاں کے عوام سمجھتے کہ ان کے ساتھ سوئی والی تاریخ دہرائی گئی ہے اب جو بھی حکومتیں آئیں گی ان کو بلوچستان کو اہمیت دینا ہوگی تب جاکر مسائل کا حل ممکن ہے اگر مثبت پالیسیاں مرتب نہ کی گئیں تو آج 5 ویں مزاحمت روکنے کے بعد کھل پھر مزاحمت شروع ہوسکتی ہے مثبت کل کی ابتداء کیلئے ہمیں ماضی کو بھلانا ہوگا انہوں نے کہا کہ ماما قدیر مجھ سے ناراض ہیں میں ان سے بات کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے بات نہیں کرتے یہ ان کی غلط فہمی ہے یا سیاسی سوچ وہ بہتر بتا سکتے ہیں وزیراعلیٰ بننے کے بعد میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ اب بلوچوں کو محض نعرہ بازی سے نہیں چلایاجاسکتا انہیں روزگار تعلیم صحت جیسی بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے تاہم اب بھی میں ان سے یہی کہوں گا کہ وہ جمہوری سیاست کی جانب واپس آجائیں انہوں نے کہا کہ فراریوں کو مراعات دینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہماری کوشش ہے کہ انہیں قومی دھارے میں واپس لائیں میں سیاسی آدمی ہوں منفی سوچ کو مثبت سوچ کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں بندوق سے مارنا ایک عمل تو ہوسکتا ہے مگر پالیسی نہیں آج اگر لشکر جھنگوی کو ختم کردیں تو طالبان آجائیں گے اور اگر ان کو ختم کردیا گیا تو داعش وہی کام کرے گی بات سوچ ختم کرنے کی ہے نام تو تبدیل ہوتے ہی رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے نمائندہ جرگہ خان آف قلات کے پاس بھجوائیں گے جو مذاکرات کرے گا ہم امن کی کوششیں جاری رکھیں گے مری معاہدے کے پابند ہیں جب تک وزیراعلیٰ رہونگا امن کیلئے کام کرتا رہونگا انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبہ میں آئی جی پولیس بااختیار ہے پولیس کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے پولیس اور لیویز کو مستحکم کرنے کیلئے جتنے بھی فنڈز درکار تھے فراہم کئے گئے کیونکہ جب ہمارے یہ ادارے مضبوط ہونگے تو امن کے قیام میں معاونت حاصل ہوگی انہوں نے کہا کہ ہم نے کرپشن کو مکمل طورپرختم نہیں کیا تاہم اس میں کمی ضرور لائے ہیں ماضی میں پیسہ جاتا تھا مگر کام نہیں ہوتا تھا مگر آج ہم نے اداروں کو فعال کیا کمشنر اور ڈی سی کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں جو تمام معاملات کو دیکھتی ہیں کرپشن وہ ناسور ہے جو ہر معاشرے کو کھاجاتا ہے کسی بھی وزیراعلیٰ سیکریٹ فنڈ نہ لینا انتہائی مشکل ہوتا ہے میں نے ابھی تک سیکریٹ فنڈ نہیں لیا ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم کوئی انقلاب لارہے ہیں ہمارے انقلاب کا نظریہ بہتر ی ہی ہے دھرنے نہیں بلوچستان میں عام انتخابات میں نچلی سطح پر شاید کوئی بدعنوانی ہوئی ہے مگر مجموعی طورپر انتخابات صاف شفاف اور منصفانہ تھے یہاں سینٹ کے انتخابات بھی شفاف ہوئے اور اس میں بہت بہتری آئی ہے انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے اس دفعہ سیاسی بدلاؤ اور ٹھہراؤ آیا ہے اور وہ چیزوں کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں بلوچستان کے مسئلہ پر بھی ان کا رویہ مثبت ہے کے پی کے والے چاہتے ہیں کہ نوازشریف جائے اور وہ آجائیں مگر میری ایسی کوئی لڑائی نہیں ہم چاہتے ہیں کہ وفاق کیساتھ ملکر بلوچستان کو امن کی جان لے جایا جائے ۔