کوئٹہ: کوئٹہ میں پولیس اور خفیہ ادارے نے مشترکہ کارروائی کے دوران صحافی ارشاد مستوئی ، عبدالرسول اور محمد یونس سمیت نوے سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ملوث کالعدم تنظیم کے دو دہشتگردوں کو گرفتار کرلیا ۔گرفتار دہشتگردوں نے اعتراف جرم کیا ہے کہ بلوچ صحافیوں اور رہنماؤں کو قتل کرکے اس کا الزام سیکورٹی ادارو ں پر لگا کر انہیں بدنام بیرون ملک بیٹھے کالعدم تنظیم کے سربراہ کو سیاسی فائدہ پہنچانا چاہتے تھے ۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں آئی جی پولیس بلوچستان محمد عملیش ،صوبائی سیکریٹری داخلہ اکبر درانی ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن حامد شکیل صابراور ایس ایس پی آپریشن کوئٹہ عبدالوحید خٹک کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 28اگست 2014ء کو صحافی ارشاد احمد مستوئی ، صحافی عبدالرسول اور اکاؤنٹنٹ محمد یونس کو کوئٹہ کے علاقے کبیر بلڈنگ میں واقع خبر رساں ادرے آن لائن کے دفتر میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ کسی تنظیم نے واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پولیس ، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے ہر ممکن کوششیں کیں۔ کئی ماہ کی انتھک کوششوں کے بعد پولیس اور انٹیلی جنس ادارے نے واقعہ میں ملوث خضدار کے رہائشی شفقت علی عرف نوید ولد محمد علی رودینی اور محمد ابراہیم نیچاری عرف شاہ جی ولد عبدالحمید کوکوئٹہ سے گرفتار کیا ۔گرفتار دہشتگرد وں کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے ہے ان میں محمد ابراہیم کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال کا ملازم ہے ۔واقعہ میں ملوث سہیل مری عرف ثوبین سمیت دو دہشتگردتاحال فرار ہیں جن کی گرفتاری کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ارشاد مستوئی کا قتل بلوچستان کا ہائی پروفائل کیس اور سیکورٹی اداروں کے خلاف بہت بڑی سازش تھی تاہم پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے دہشتگردوں کو گرفتار اس سازش کو بے نقاب کردیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرخرو کیا۔ یہ بھی سبین محمود کے قتل جیسی سازش تھا جس کا مقصد بے گناہ افراد کو قتل کرکے اس کا الزام سیکورٹی اداروں پر ڈالنا تھا تاکہ ان کو بدنام کیا جاسکے۔ یہی گروہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل ریٹائر سینیٹر حبیب جالب ، انوائرمنٹل ٹربیونل کے جج سخی سلطان ایڈووکیٹ اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ضیاء اللہ قاسمی کے قتل میں بھی ملوث تھا ۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ گرفتار دہشتگرد اور ان کے مفرور ساتھی جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمداللہ کو نشانہ بناکر پشتون جماعتوں کو لڑانا چاہتے تھے تاکہ بلوچستان میں حالات خراب کرکے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جاسکے ۔ یہی گروہ لاپتہ افراد کی تنظیم کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنارہے تھے ۔ایسی وارداتوں سے دہشتگرد بیرون ملک بیٹھے اپنی قیادت کو سیاسی فائدہ پہنچاکر عالمی سطح پر پاکستان ،اس کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں اداروں کوبدنام کرنا چاہتے تھے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی نے کہاہے کہ سینیٹر حافظ حمد اللہ کی کوئٹہ آمد کے موقع پر ان کی سیکورٹی سخت کردی جاتی ہے ۔۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہیں جن کے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فراری کیمپس موجود ہیں ۔ ان کیمپوں کا خاتمہ کرنے کیلئے سیکورٹی فورسز گاہے بگاہے ٹارگٹڈ آپریشن کرتی رہتے ۔آخری دہشت گرد تک یہ کارروائیاں جاری رکھی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کسی زمانے میں تنظیموں کی لڑائی کو حقوق کی جنگ قرار دیا جاتا تھا لیکن اب یہ حقوق کی جنگ نہیں رہی اور اسے بیرونی خفیہ ایجنسی کی پرواکسی وار قرار دے دینا چاہیے۔سرفراز بگٹی نے کہا کہ گرفتار دہشتگردوں نے اعتراف کیا کہ ان کا گروپ کوئٹہ کے علاقے عارف اسٹڑیٹ ، ڈگری کالج، قمبرانی روڈ، منو جان روڈ، ڈبل روڈ ، سمنگلی روڈ، ،موتی رام روڈ، جناح روڈ، ہدا روڈ، کواری روڈ، ، کلی بنگلزئی سریاب روڈ، عثمان روڈ، ،کلی قمبرانی ، وحدت کالونی، سیٹلائٹ ٹاؤن میں پولیس اہلکاروں ، حجام اور ویلڈنگ کی دکانوں، آباد کاروں کے گھروں پر دستی بم حملوں ، ٹارگٹ کلنگ اور سیکورٹی فورسز پر بم حملوں میں ملوث تھا۔ پریس کانفرنس میں گرفتار دونوں دہشتگردوں کو پیش کیا گیا جبکہ ان کے اعترافی ویڈیو بیانا ت بھی دکھائے گئے جس میں دہشتگرد شفقت علی عرف نوید نے بتایا کہ ’’میں دو سال سے کالعدم تنظیم بی ایل اے کیلئے کام کررہا ہوں۔ خضدار میں بی ایل اے کیلئے موٹر سائیکلوں کا انتظام کرتا تھا۔ ارشاد مستوئی کے قتل کیلئے بی ایل اے کے کمانڈر سہیل مری عرف ثوبین نے مجھے کوئٹہ بلایااور سمنگلی روڈ کے ایک فوڈ پوائنٹ پر موبائل پر ارشاد مستوئی کی تصویر دکھا کر قتل کرنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا۔ سہیل مری عرف ثوبین کو کالعدم تنظیم کے مرکزی کماندر اسلم عرف اچھو نے ارشاد مستوئی کی ہدایت کی تھی۔ میرے پوچھنے پر سہیل مری نے بتایا کہ ارشاد مستوئی بلوچ صحافی ، کالعدم نگار اور اچھا آدمی ہے ، بلوچوں کیلئے لگتا ہے اور خراب آدمی نہیں ۔ میں نے کہا کہ تو پھر اس کو کیوں ماررہے ہیں۔سہیل مری نے کہا کہ اس کو مارنے کی خاص وجہ ہے ۔ اسلم اچھو نے کہا ہے کہ اس کو مارنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ ہم لوگ اور ہمارے جو بڑے ہیں حیربیار مری وغیرہ ان کو اس کی موت کا بہت فائدہ ہوگا ان کے کام میں اور زیادہ وزن ملے گا اور وہ باہر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں میں کہیں گے کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی، ایم آئی ، ایف سی اور پولیس نے ملکر ارشاد مستوئی کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ہمارے صحافیوں کو ماررہے ہیں اور تعلیم یافتہ بلوچوں کو بھی قتل کررہے ہیں ۔ اس وجہ سے ادھر لندن میں ان کو کامیابی ملے گی اور ادھر لندن میں ان کو کامیابی ملے گی اور ادھر بلوچ عوام اور صحافی بھی ان اداروں سے نفرت کریں گے۔ اس کے بعد ہم نے واردات کا فیصلہ کیا ۔ ایک دن ارشاد مستوئی کے دفتر کی ریکی کرکے چند دنوں بعد انہیں مارنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھائیس اگست کو میں ، سہیل مری ، ابراہیم عرف شاہ جی اور جہانزیب واردات کیلئے پہنچے۔ سہیل مری نے کہا کہ وہ مجبوری کی وجہ سے نہیں آسکتا کہ کوئی مجھے پہچان نہ لے کیونکہ کیونکہ ارشاد مجھے جانتا ہے۔ میں کبیر بلڈنگ میں داخل ہوا ،سہیل مری جناح روڈ پر کھڑا ہوگیا تاکہ پولیس اور ایف سی پر نظڑ رکھ سکے جبکہ ابراہیم نیچاری کبیر بلڈنگ کے نیچے موٹر سائیکل کھڑی کرکے انتظار کیلئے کھڑا تھا ۔ اس نے منہ پر میڈیکل والا ماسک پہنا ہوا تھا۔ جبکہ کبیر بلڈنگ کے دوسری طرف جہانزیب نظر رکھ رہا تھا۔ میں دفتر گیا تو ارشاد مستوئی کے ساتھ دو لوگ اور بیٹھے تھے ۔ پہلے تو میں گھبرایا گیا لیکن پھر میں نے سامنے والے بندے پر فائر کردیا۔ فائر کے بعد باقی دو نوں بندے کھڑ ہوگئے ان میں سے ایک نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی اور دوسرے نے مکا مارنے کی کوشش کی۔ میں نے گھبرا کر ان پر بھی فائر کھول دیا۔ فائر کے بعد جب میں واپس مڑا تو سیڑھیوں سے پھسل کر گر پڑا لیکن فوراً ہی اٹھ کر گھبراہٹ میں باہر نکل گیا ۔ نیچے گیا تو ابراہیم نہیں تھا جو بعد میں جناح روڈ پر میرے پیچھے آیا اور مجھے موٹر سائیکل پر لے گیا۔ اس کے بعد ہم پرنس روڈ تک گئے اور وہاں سہیل مری نے موٹر سائیکل میرے حوالے کی اور پسٹول وغیرہ ساتھ لے گئے۔ اسی رات آٹھ بجے کے قریب سہیل نے مجھے کال کی اور کہا کہ یار اچھا کام ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ڈبل روڈ پر جوس کی دکان میں بیٹھ کر ہم نے تیرہ نومبر کے جلوس کی بات کررہے تھے تو سہیل مری نے کہا کہ ریلی میں ماما قدیر نے خود کو تھوڑ الٹ پلٹ کیا ہے تو استاد اسلم اچھو اور ہم نے مشورہ کیا ہے کہ ابھی ماما قدیر کے ساتھ بھی حبیب جالب بی این پی مینگل والا جیسا کریں گے ۔ حبیب جالب کو استاد اسلم اچھو والے بی ایل اے کے گروپ نے مارا تھا اور اس کو قبول نہیں کیا اور اآج تک کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ پھر نے کہا کہ ماما قدیر کو دیکھتے ہیں ابھی یہ ڈاکٹر اللہ نذر اور براہمداغ بگٹی کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔ اگر یہ سدھر گیا تو ٹھیک ورنہ اس کو بھی اڑا دیں گے اور قبول نہیں کریں گے ۔ پھر بین الاقوامی حوالے سے حیربیار مری ادھر بولے گا کہ ماما قدیر جو کہ پرامن جدوجہد کررہا تھا اس کو پاکستانی ایجنسیوں نے قتل کردیا ہے اس سے ہمیں بھی بڑا فائدہ ہوگا اور بلوچ بھی ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمداللہ کو بھی مارنا ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی دوسری پارٹیوں سے جو اختلافات ہیں ان کی وجہ سے یہ آپس میں لڑپڑیں گے ، اس کا ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور ہماری ان سے جان بھی چھوٹ جائے گی‘‘۔