|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2015

لندن: ترکی کے ساحل پر شام سے تعلق رکھنے والے ننھے تارک وطن کی لاش کی تصویر نے دنیا بھر کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ شام سے تعلق رکھنے والے عبداللہ کُردی کے دل میں بھی اپنے ہزاروں ہم وطنوں کی طرح گھر والوں کے لئے داعش کے خوف سے آزاد فضا کی خواہش تھی، اس کے لئے اس نے بھی اپنی آبائی زمین چھوڑ کر پہلا پڑاؤ ترکی میں ڈالا، جہاں اس نے کینیڈا میں پناہ کے حصول کے لئے درخواست دی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔ کینیڈین سفارت خانے کی جانب سے درخواست مسترد کئے جانے کے بعد اس نے ترکی کے راستے یورپ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ جس خاندان کے لئے وہ تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کو تیار تھا، وہی اس سفر کے دوران جان کی بازی ہار جائیں گے۔ عبداللہ کردی نے اپنی بیوی ریحان، 5 سالہ بیٹے گالپ اور 3 سالہ ایلان کے ہمراہ ترکی سے یورپ جانے کے لئے کشتی کا سفر شروع کیا۔ ابھی ان کی کشتی یونان کے جزیرے کوس کے قریب ہی پہنچی تھی کہ  الٹ گئی، حادثے میں عبداللہ تو بچ گیا لیکن اس کی بیوی ریحان، 5 سالہ بیٹا گالپ اور 3 سالہ ایلان جاں بحق ہوگئے۔ ریحان اور گالپ کی لاشیں تو یونانی حکام نے نکال لیں لیکن ایلان کی لاش بہتے ہوئے ترکی کے ساحل بودرم پر جاپہنچی، ساحل سمندر پر موجود اس کی لاش کی تصویر نے شام اور عراق میں ناصرف مسلم دنیا بلکہ عالمی طاقتوں کے مکروہ کھیل کو بھی واضح کردیا ہے۔ دنیا بھر میں 3 سالہ ایلان کی تصویر نے لوگوں کے دل دہلا دیئے ہیں اور اس سے عراق، شام اور لیبیا سے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کے مسئلے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اس تنازعے کا ذمہ دار کون ہے اور اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ تمام ترمصائب سہنے کے بعد اب عبداللہ کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو اس کی آبائی سرزمین میں سپرد خاک کرے۔