بیروت: ترکی کے ساحل سے گزشتہ ہفتے مردہ حالت میں ملنے والے شامی بچے کے ساتھ ہمدردی کے لئے ہزاروں افراد نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔
ان مظاہروں کا مقصد شام میں خانہ جنگی کے باعث دربدر ہونے والے مہاجروں کے حوالے سے دنیا بھر میں شعور اجاگر کرنا اور ایسے واقعات میں عالمی برادری کی بے ہسی کو جنجھوڑنا تھا۔
مراکش، فلسطین، آسٹریلیا اور برازیل سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں لوگوں نے اس مرحوم شامی بچے کے ساتھ عالمی برادری خاص طور پر یورپ کے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ترکی میں مقیم مہاجر شامی کرد افراد ایک کشتی کے ذریعے یونان جانے کی کوشش کررہے تھے جس میں ان کی کشتی سمندر کی بے رحم موجوں کا نشانہ بن گئی اور کئی خواتین، بچے اور مرد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے۔
ان کی لاشیں ترکی کے مختلف ساحلی علاقوں سے ملی تھیں تاہم ان میں سے ایک 3 سالہ بچے ایلان کی لاش نے دنیا بھر کی بے ہسی کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ بچہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ سمندر کی بے رحم موجوں کا شکار ہوا جس میں اس کی ماں اور ایک بھائی ہلاک ہوگئے تاہم اس کا والد محفوظ رہا۔
ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں ملنے والے تین سالہ بچے ایلان، اس کے بھائی غالب اور والدہ کی تدفین گزشتہ ہفتے میں شام کے علاقے کوبانی میں کردی گئی۔
تدفین میں شرکت کرنے والے ایک مقامی صحافی کے مطابق ایلان شینو، اس کے بھائی اور والدہ کی تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔
واضح رہے کہ کوبانی شام کا وہ علاقہ ہے جہاں کرد ملیشیا اور دولت اسلامیہ (آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور کرد فورسز نے کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد رواں برس جنوری میں اس قصبے سے آئی ایس کو باہر نکالا تھا۔
عبداللہ کا خاندان کئی بار شام کے اندر بے گھر ہونے کے بعد جون میں کوبانی واپس لوٹا تھا مگر آئی ایس جنگجوﺅں کی جانب سے دوبارہ محاصرے کے بعد وہ پھر سے نکل گیا۔
اس کے بعد عبداللہ کے خاندان نے ترکی کے راستے یورپ پہنچنے کا فیصلہ کیا جس کے دوران یہ سانحہ پیش آیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ترکی سے بذریعہ سمندر یونان جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کشتیاں ڈوبنے کے واقعات بھی میڈیا پر آتے رہتے ہیں، لیکن مہاجرین کو پیش آنے والے حالیہ المناک واقعے نے یورپی عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ یورپی یورپین پر اس حوالے سے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔