|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2015

کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے انٹرمیڈیٹ کے نتائج کے حوالے سے طلباء میں پائی جانے والی بے چینی اور اس حوالے سے ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی ہے جو طلباء کے اعتراضات اور خدشات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اس ضمن میں صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے فوری طور پر محکمہ تعلیم کے سیکرٹریوں ، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور پولیس حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کیااور وزیراعلیٰ کی ہدایت کی روشنی میں ڈائریکٹر کالجز کی سربراہی میں فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جس کے اراکین میں ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ،ایڈیشنل سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن، کنٹرولر امتحانات بورڈ آف انٹر میڈیٹ اور ڈپٹی سیکرٹری سٹبلشمنٹ محکمہ تعلیم شامل ہیں جبکہ وہ طلباء جنہیں اپنے نتیجے کے حوالے سے کوئی اعتراض یا خدشہ ہے انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر اپنے اعتراضات تحریری طور پر کمیٹی کو پیش کریں تاکہ جائز اعتراضات کو فوری طو رپر دور کیا جائے اور کسی امیدوار کی حق تلفی نہ ہو۔ اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیاگیا کہ طلباء کے پرامن احتجاج کو بعض منفی عناصر نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے اور امن وامان کی صورتحال پیدا کرنیکی کوشش کی جسے پولیس نے نہایت کامیابی کے ساتھ ناکام بنادیا جس پر پولیس کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے طلباء کی ہنگامہ آرائی کے دوران فائر کئے گئے نائن ایم ایم کے تین خول بھی پولیس نے قبضے میں لے لئے ہیں جبکہ جواد درانی نامی ایک لیکچرار کو بھی جو طلباء کو ورغلانے میں ملوث پایاگیا فوری طو رپر معطل کرکے محکمانہ کروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔اجلاس میں احتجاج کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف محکمانہ اور قانونی کاروائی کیلئے بھی ایک فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیاگیا کہ حکومت محکمہ تعلیم میں میرٹ کی پالیسی پر پوری طرح کاربند ہے اور نقل کے مکمل تدارک کو بھی ہر صورت یقینی بنایا جائے گا تاہم بعض عناصر میرٹ اور نقل کے حوالے سے حکومتی پالیسی کو ناکام بناکر بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی پولیس حکام کی جانب سے اجلاس کو آگاہ کیاگیا کہ ہنگامہ آرائی کے دوران حراست میں لئے گئے طلباء اپنے کئے پر نادم ہیں اور انہیں والدین کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے بعدکہ آئندہ ان کے بچے ایسی کاروائی کا حصہ نہیں بنیں گے ضمانت پر رہا کیا جارہا ہے۔