کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ جشنیں منانا ان قوموں کا کام ہے جن کے دیگر مسائل حل ہو جن کے بچوں کے پاس سکول میں ایک روپے کی پنسل نہ ہو وہ کس منہ سے جشن زیارت مناتے ہیں افسوس کا مقام ہے کہ جن کا دعویٰ تھاکہ وہ قوم کی حالت بدل دینگے حالت ضرور بدلی ہے لیکن ان کے وسائل کو بے دردی سے ضیاع کرکے جشن زیارت منانے والے والوں سے پوچھتے ہیں کہ زیارت میں اس وقت کتنے سرکاری سکول فعال ہے ۔یہ بات انہوں نے صوبے میں مختلف اضلاع میں جشنوں کے نام پر سرکاری وسائل کی بیدردی سے ضیاع پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہی،انہوں نے کہا کہ نہ ہی ان کو جشن سے محبت ہے نہ ہی بابا سے اگر ان کو محبت ہے تو اپنی مفادات سے ہیں وہ حیران ہے کہ حب دنیا میں کل تک جو لوگ جن شخصیات کے سوچ وفکر سے اختلاف رکھتے تھے آج بعد از مرگ ان کی شان میں قصیدے مخصوص اپنی جیبیں بھرنے کیلئے لکھ رہے ہیں وہ کسی کھیل و تفریح کیخلاف نہیں ہیں لیکن وہ ضرور خلاف ہے ایسے میلوں کی کہ جس میں قوم کے بچوں کو سکول میں تو تفریحی میدان تو دور کی بات سرچھپانے کیلئے چھت میسر نہ ہو وہاں پر اس طرح کے میلوں کا انعقاد مخصوص بے بس لوگوں کی زخموں پرنمک پاشی کے سواء کچھ نہیں انہوں نے کہاکہ حکومت میں آنے کے بعد دوسروں کے احتساب کرنے اور خود کو کیلئے پیش کرنے کا اعلان والے حکومت نے آج کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں جس طرح پسند اور ناپسند اور اپنے وزراء کو نوازنے کیلئے مختلف اضلاع میں جشن کے نام پر رقوم جاری کیے گئے کیا یہ خود احتسابی کا اعلان کرنے والے حکومت کا کوئی دوسرا روپ ہے کہ جس میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیاگیا کہیں پر جشن تربت،تو کہیں پر جشن زیارت ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ضلع کے عوام میں جشن منانے کی صلاحیت ہو ہی نہیں میرٹ والی حکومت یہ بتائیں کہ اس جشنوں کے نام پر اب تک کتنی رقم سرکاری خزانے سے خرچ کی گئی یا پھر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ اب جو اسٹیڈنگ کمیٹیاں اس طرح کی چیزوں کو بے نقاب کرتی تھیں وہاں پر حکومت نے اپنے لوگ بیٹھادئیے ہیں اپوزیشن اسے میں حکومت سے مطالبہ کرسکتی ہے کہ وہ اس مد میں خرچ ہونے والے تمام رقوم کا ریکارڈ یا تو اپوزیشن کو دیں یا عوام کو اخبارات کے ذریعے بتائیں انہوں نے کہاکہ وہ پوچھتے ہیں کہ اب تک جن اضلاع میں اس طرح کے جشن منائے گئے ہیں اس سے غریب بلوچستانی عوام کو کیا ملا ہے اوریہ کس شخص کی سوچ تھی کہ جو اپنی تنخواء کی رقم سے تو جشن میں ایک روپے بھی خرچ نہیں کرتا جشن میں جانے کیلئے بھی سرکاری گاڑی کا استعمال کیاجاتا ہے وہاں پر اعلانات بھی سرکاری خزانے سے کیے جاتے ہیں وزراء بھاری بھاری تنخواہئیں سرکاری خزانے سے لے رہے ہیں ان تمام جشنوں میں آج تک انہوں نے کسی بھی وزیر کو یہ بھی سننے نہیں دیکھا ہے وہ اپنے ایک ماہ کی تنخواء جشن تربت کیلئے مختص کررہے ہیں یہ کہاں کی قوم دوستی کہ قوم کے نام پر سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے لیکن جب حکومت سے باہر ہو جاتے ہیں تو ان کو قوم کی وسائل اور ان کے اس طرح اخراجات جو کہ اب یہ خود کررہے ہیں انتہائی باریک بینی سے نظر آتے ہیں جو کہ ان کے قول و فعل میں تضاد کو نمایاں کرتی ہیں چیف سیکرٹری بلوچستان اس طرح کے رقوم کی اجراء کرنے سے محکمہ فنانس کو منع کریں۔