کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پانچ ستمبر کو ریاستی فوجی آپریشن میں بسیمہ کے علاقے راغے میں دو درجن کے قریب گھروں کو جلانے اور کئی بلوچ فرزندوں کوحراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر کے چھ کی مسخ شدہ لاشیں سوراب کے علاقے کلغلی میں پھینکی گئیں ۔تاہم کئی ابھی تک لاپتہ ریاست کی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ جن کے نام میڈیا کے سامنے لاکر مطلع کرنا بی این ایم ضروری سمجھتاہے،تاکہ پاکستان کی وحشی فوج انہیں شہید کرنے کے بعد قصور وار ٹھہرایا جا سکے اور یہ میڈیا و دنیا کے سامنے واضح ہو کہ کس طرح ایک قابض ریاست بلوچ فرزندوں کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر کے انکی مسخ لاشیں پھینکتی ہے ۔ سوراب سے ملنے والی بلوچ فرزندوں کی لاشیں ملنے سے پہلے میڈیا اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو ان کے اغوا کی رپورٹ بھیجی گئی تھی ۔مگر میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں نے حسب معمول اس خبر کو پاکستان کی فوج و خفیہ اداروں کے خوف سے رپورٹ نہیں کیا اور پارٹی کے رپورٹ و زمینی حقائق کو یکسر مسترد کیا جو ایک افسوسناک عمل کے ساتھ ان اداروں کی کرداراور وجود پر سوالیہ نشان ہے۔پانچ ستمبر کے فوجی آپریشن میں زخمی ہونے والے نادر و لد دُر محمد کو علاج کیلئے رخشان لے جا گیا ۔ الیاس ولد تاج محمد، غفور ولد خدابخش، حمیداللہ ولد محمد بخش، خدا رحم ولد محمد بخش زخمی نادر ولد دُرمحمد کی تیمارداری کیلئے ساتھ تھے۔ چھ ستمبر کو آرمی نے چھاپہ مار کر زخمی نادر اور اس کے تیمار داروں اور وہاں سے حمید خان ولد مزار ، خدا رحم ولد محمداور شاہ سلیم ولد غوث بخش کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔ پانچ ستمبر کو دوسرے اغوا ہونے حفیظ ولد جنگی خان، اُمیت خان ولد پہر دین، اور مشکے کے رہائشی خالق داد ولد لعل خان بھی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ یہ تمام نہتے بلوچ اپنے علاقے راغے میں کسان و مزدور ہیں ۔ دس دن گزرنے کے باوجود ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو رہاہے کہ ان کو بھی راغے سے اغوا کئے گئے اور سوراب سے ملنے والی لاشوں عزیز ولد بیزن، نیازاللہ، کریم داد ولد جان محمد، غوث بخش ولد ولی محمد، عیسیٰ ولد باران اور عنایت ولد ڈاکٹر ثنااللہ کی طرح شہید کرکے لاشیں پھینک دی جائیں گی۔ اس سال آپریشن، اغوا، گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں شدت آئی ہے مگر کٹھ پتلی سرکار رائے عامہ اور میڈیا کو گمراہ کرکے پر امن بلوچستان منصوبہ اور بلوچستان میں امن کا راگ الاپ رہا ہے۔دوسری طرف میڈیا پرسنز بلوچستان کا رخ کرنے کے بجائے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر آئی ایس پی آر کی جھوٹی خبروں کو میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں ،جو صحافتی ذمہ داریوں کے منافی ہے۔