|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2015

کوئٹہ:  وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے کوشاں ہے مزاحمت کاروں کو کچلنا مسئلہ کا حل نہیں سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانیوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بدامنی کی بڑی وجہ ڈیتھ اسکواڈ تھے جن کا تدارک کردیاگیا ہے اور اس کے بعد بلوچستان کے مختلف اضلاع میں امن وامان کی صورتحال میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے ڈیتھ اسکواڈ کو لگام دینا ضروری تھا اگر یہ دوبارہ بحال ہوئے توحالات خراب ہونگے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کامسئلہ درپیش ہے اور اس میں ہم پیشرفت نہیں کرسکے تاہم بہت سی پیچیدگیاں ہیں ہم اس وقت کنفلکٹ زون میں ہیں اور چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ مزاحمت کاروں کو کچلنا مسئلہ کا حل نہیں یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے سیاسی انداز میں حل ہونا چاہئے ہم روز اول سے یہی موقف اختیار کئے ہوئے تھیں اور انتہائی خوش آئند عمل ہے کہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے بھی مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جو بہت بڑی ہے اس سے قبل تو وہ مذاکرات کی بات بھی نہیں کرتے تھے میرا اب تک ان سے رابطہ نہیں ہوا تاہم موجودہ صوبائی حکومت تمام ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیلئے کوشاں ہے مجھے سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے مذاکرات کیلئے مکمل اختیار حاصل ہے اور مذاکرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تاہم چیزیں آہستہ آہستہ بہتری کی جانب جارہی ہیں ہم سیاسی لوگ ہیں اور بلوچستان کو سیاسی انداز میں مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس بدھ کو منعقد ہوا، اجلاس میں بلوچستان پرائیویٹ ایجوکیشن ریگولیٹری بل 2015 کو صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دی گئی ، بل میں نجی تعلیمی اداروں کی ترقی، فروغ تعلیم، اصول و ضوابط، رجسٹریشن اور نظم و نسق، طلباء کی فیسوں میں اضافے، طلباء کو سہولیات کی فراہمی، تعلیمی معیار، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، بل کے نفاذ سے اتھارٹی نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تنخواہوں، طلباء کی غیر ضروری فیس میں اضافے جیسی شکایات کے ازالے کے علاوہ مادری زبانوں میں تعلیم کے قانون کو بھی نفاذ کرنے کا مجاز ہوگی۔ اجلاس میں بلوچستان فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بل کی منظوری دی گئی جس کا اطلاق صوبے بھر میں ہوگا، اتھارٹی صوبے میں اشیاء خوردونوش کے حفظان صحت کے مطابق فروخت کو یقینی بنانے اور مضر صحت اشیاء کی فروخت کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔ کابینہ کے اجلاس میں ‘سپارکو” کو خلائی سہولیات کی تنصیب کے لیے پسنی تحصیل میں لیز پر مطلوبہ اراضی کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (DHA) ایکٹ 2015 کی بھی منظوری دے گئی ، جسے اسمبلی میں پیش کیا جائیگا، اجلاس میں لیبر پالیسی ایکٹ 2015 کو کابینہ کے آئندہ اجلاس تک موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس میں ترقیاتی فنڈز، ترقیاتی اسکیمات اور پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کا جائزہ لینے سے متعلق صوبائی کابینہ کے 4اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں مختلف صوبائی محکموں میں خالی آسامیوں پر تعیناتی کے عمل کو تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، اجلاس کے آغاز میں صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی کے بھائی ریاض جوگیزئی کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبائی حکومت کو منتقل ہونے والے امور سے متعلق قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ اس کے ثمرات سے صوبے کے عوام مستفید ہو سکیں، وزیر اعلیٰ نے محکمہ محنت و افرادی قوت کی جانب سے پیش کردہ بل کے مسودہ کے حوالے سے کہا کہ اس مسودہ پر مزدور تنظیموں کے مجاز نمائندوں اور وزیر اعلیٰ ریفارمز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر قیصر بنگالی سے بھی رابطہ کیا جائے اور ان کی قابل عمل تجاویز کو بھی مسودہ میں شامل کر کے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں۔ انہوں نے پرائیویٹ ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی 2015 کے نفاذ سے بلوچستان میں نجی تعلیمی ادارے کو ریگولیٹ کرنے میں مدد ملے گی اور نجی تعلیمی اداروں میں سہولیات، فیسوں، والدین کی شکایات کے خاتمہ میں مدد ملے گی اور معیار تعلیم میں بھی بہتری آئے گی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملک بھر اور بلخصوص بلوچستان میں بعض سماج دشمن اور منافع غور عناصر اپنے چھوٹے سے منافع کے لیے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، صوبے میں غیر معیاری اور مضر صحت اشیائے خوردونوش کی فروخت کی شکاتیں عام ہیں، بلوچستان فوڈ اتھارٹی کے قیام سے عوام دشمن عناصر کو نہ صرف سزا دلوانے میں مدد ملے گی، بلکہ عوام کو حفظان صحت کی اشیاء کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ DHA بلوچستان میں عوام کو بہتر رہائشی سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے، DHA ایکٹ کی منظوری سے کوئٹہ کے عوام کو بھی عصر حاضر کی جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی سہولیات سے مستفید ہو سکیں گے۔