|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2015

کروئیشیا نے سربیا سے گذرنے والے اپنے اٹھ میں سے سات سرحدی علاقوں کو بند کردیا ہے۔ اس وقت ہزاروں تارکینِ وطن جرمنی اور یورپی یونین میں داخلے کے لیے متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اورہنگری کی جانب سے سرحد بند کیے جانے کے بعد گذشتہ دو دنوں کے دوران کم ازکم 11 ہزار تارکینِ وطن کروئیشیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل کروئیشیا کے وزیراعظم زوران میلانوچ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک مغربی یورپ جانے کی خواہاں تارکینِ وطن کو نہیں روک سکتا۔ اپنے بیان میں کروئیشیا کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے پاس محدود جگہ ہے تاہم وہ کوشش کریں گے کہ جتنا ممکن ہو سکے تارکینے وطن کو رجسٹرڈ کیا جائے۔ دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعرات کو سلووینیا کی پولیس نے کروئیشیا کی سرحد کے قریب دبوا کے مقام پر تارکینِ وطن کی ٹرین کو روکا جس میں 100 کے قریب افراد موجود تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ان تاکرینِ وطن کو دوبارہ کروئیشیا بھجوایا جائے گا۔ ادھر کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو سرحد پر دو جگہ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں پناہ گزین پولیس کی صفوں کو توڑ کو سربیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ تارکینِ وطن جرمنی جانا چاہتے ہیں تاہم کروئیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں پناہ کی درخواست دینی ہوگی ورنہ انھیں غیر قانونی تارک وطن تصور کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ پناہ کےطالب لوگوں سے ایسا رویہ ’ناقابل قبول‘ ہے
کروئیشیا کے دارالحکومت زگریب میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار گوئے ڈیلونی کا کہنا ہے کہ سرحدی راستوں کی بندش کی وجہ سے یونان سے شمالی یورپ تک مرکزی زمینی راستہ بند ہوگیا ہے۔ ادھر پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے یوریی یونین کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس اگلے ہفتے ہو رہا ہے۔ کروئیشیا کے سرحدی علاقے ٹیورنک میں موجود بی بی سی کے نمائندہ فرگل کین نے بتایا ہے کہ جمعرات کو کروئیشین پولیس کوشش کر رہی تھی کہ وہ کئی ہزار پناہ گزینوں کو اپنی سرحد کے اندر داخل نہ ہونے دے لیکن لوگوں نے پولیس کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس وقت تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کروئیشیا سے آگے جانے کے لیے سربیا کے گاوں سِد کی سرحد پر موجود ہیں۔

’ہنگری کا رویہ ناقابلِ قبول ہے‘

پناہ کےطالب لوگوں سے ایسا رویہ ’ناقابل قبول‘ ہے
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ ہنگری میں پناہ گزینوں سے کیے جانے والے برتاؤ سے انھیں صدمہ پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ پناہ کےطالب لوگوں سے ایسا رویہ ’ناقابل قبول‘ ہے۔ ہنگری نے پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کی جانے والی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے 20 پولیس اہلکار اس وقت زخمی ہوگئے تھے جب پناہ گزینوں نے ایک گیٹ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔ پولیس نے پناہ گزینوں پر الزام عائد کیا کہ وہ بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جھڑپوں کے واقعے کے بعد ہنگری کے وزیر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق انھوں نے سربیا سے کہا کہ وہ سرحدی پولیس پر حملے کرنے والے پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کرے۔
یورپ میں پناہ گزینوں کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے
ادھر جرمن پولیس نے کہا ہے کہ بدھ کے روز 7266 لوگ جرمنی میں داخل ہوئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ سے تقریباً دگنی ہے۔ یورپی یونین کی باڈر ایجنسی کے مطابق رواں سال اب تک پانچ لاکھ سے زائد تارکینِ وطن ممبر ممالک میں پہنچے جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد تین لاکھ سے کم تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سمندری راستہ عبور کر کے یہاں آئے۔

کوٹے پر جھگڑا

یورپی یونین کی جانب سے دو ٹوک ایکشن نہ ہونے کی وجہ سے تارکینِ وطن کا بحران جاری رہے گا: ترجمان یو این ایچ سی آر
منگل کو یورپی یونین کے ممبران نے اٹلی اور یونان سے آنے والے 40 ہزار تارکینِ وطن کی دوبارہ آبادکاری پر رضامندی کا اظہار کیا۔ تاہم ابھی ان ممالک کی خود کو تفویض کردہ کوٹے پر عمل درآمد کے لیے رضامندی دی جانا باقی ہے۔ جس کے تحت ایک لاکھ 20 ہزار تارکینِ وطن کی مدد کی جائے گی۔ جرمن چانسلر آنگیلا میرکل نے کہا ہے یہ مسئلہ صرف مل جل کر حل ہو سکتا ہے۔ اور یہ پورے یورپی یونین کی ذمہ داری ہے۔ تاہم دوسری جانب چیک رپبلک، سلواکیا اور ہنگری نے تارکینِ وطن کے حوالے سے کوٹے کے طریقۂ کار کی مخالفت کی ہے۔ جرمنی نے پیر کو سرحد پر عارضی کنٹرول کو متعارف کروایا تھا ۔اس کی بدولت تارکینِ وطن کی آسٹریا جانے کی رفتار میں کمی آئی جہاں 2000 افراد نے رات ریلوے سٹیشن پر ہی گذاری۔