کوئٹہ :وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر کو درپیش پانی کی کمی اور صفائی کی صورتحال سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، حکومت اس حوالے سے کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن سے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے تاہم کارپوریشن کو بھی وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی حکومتوں کے فنڈز سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں کوئٹہ شہر کے مسائل کا خصوصی طور پر جائزہ لیا گیا اور اس حوالے سے میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ خان اور ڈپٹی میئر محمد یونس بلوچ نے اجلاس کو کوئٹہ شہر کے مسائل اور ان کے حل کے لیے تیار کی جانے والی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ کارپوریشن کو درپیش مالی و دیگر مشکلات سے آگاہ کیا۔ صوبائی وزراء سردار مصطفی خان ترین، عبدالرحیم زیارتوال، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات، سیکریٹری بلدیات، سیکریٹری خزانہ ، وزیر اعلیٰ کے کوآرڈینیٹر احمد جان اور جمال شاہ کاکڑ نے بھی اجلاس میں شرکت کی،وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ہر ادارہ اور ہر ذمہ دار شخص اپنے فرائض کی انجام دہی نیک نیتی اور خلوص سے کرے تو کوئی وجہ نہیں کے اجتماعی مسائل حل نہ ہوں، انہوں نے کہا کہ ہر کام وزیر اعلیٰ پر نہیں چھوڑنا چاہے بلکہ وزراء ، عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کو آئین قانون اور قواعد و ضوابط کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے ذریعہ اپنی اپنی سطح پر مسائل کے حل کے رحجان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ترقی یافتہ معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ہر ادارہ اپنی سطح پر مسائل حل کرتا ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی صورحال سنگین ہو رہی ہے، ٹیوب ویل فروخت ہو چکے ہیں اور ٹینکر مافیا اپنی من مانی کر رہا ہے، یہی صورتحال صفائی کی بھی ہے، ان تمام مسائل کے مستقل اور دیرپا بنیادوں پر حل کی ضرورت ہے، اگر بلدیاتی ادارے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نچلی سطح پر عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی شق 140 میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت ہے تو حکومت اس کے لیے تیار ہے، وزیر اعلیٰ نے میئر کی جانب سے مالی اور انتظامی اختیارات کے استعمال میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کے حوالے سے یقین دلایا کہ میئر اور چیئرمینوں کو اپنے دفاتر میں افسران کی تعیناتی سمیت دیگر انتظامی معاملات نمٹانے اور مالی اختیارات کے استعمال میں کسی قسم کی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی، وزیر اعلیٰ نے میئر کی جانب سے کوئٹہ شہر کی مکمل صفائی کے لیے خصوصی گرانٹ کی فراہمی کا جائزہ لینے کی یقین دہانی بھی کرائی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے میئر پولیٹن کارپوریشن کو صفائی کی جدید مشینری اور گاڑیوں کی خریداری کے لیے ساڑھے سینتیس کروڑ روپے کی گرانٹ کا اجراء کر دیا گیا ہے اور امید ہے کہ اس سے شہر میں صفائی کی صورتحال بہتر ہوگی اور شہریوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوگا، وزیر اعلیٰ نے کوئٹہ میں نصب کچرہ ٹھکانے لگانے کے بند پلانٹ کی فعالی اور اسے نجی شعبہ کے ذریعہ چلانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے محکمہ بلدیات کو ڈسٹرکٹ کونسلوں کے چیئرمینوں اور کونسلرز کے لیے اعزازیہ مقرر کرنے کی تجویز کا جائزہ لیکر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ نے میئر اور ڈپٹی میئر سے کہا کہ وہ بھی شہر کے پولیس تھانوں اور سکولوں کا دورہ کر کے ان کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں، وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ انہوں نے گذشتہ شب کوئٹہ شہر کے مختلف تھانوں کا اچانک معائنہ کیا اور انہیں تھانوں اور حوالات کی خستہ حالی پر انتہائی دکھ ہوا، تھانوں میں نہ تو پانی دستیاب تھا اور نہ ہی باتھ روم اچھی حالت میں تھے، بعض حوالات میں بجلی بھی نہیں تھی جبکہ ایس ایچ او کی کرسی تک ٹوٹی ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے محکمہ پولیس کی ہر ضرورت کو پورا کیا ہے، پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں جس پر 10ارب روپے کے اضافے اخراجات آرہے ہیں، جبکہ پولیس تھانوں اور پولیس کی عمارتوں کی بہتری کے لیے 2ارب روپے جاری کئے گئے ، اس حوالے سے آئی جی پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فنڈز کے مصرف کی رپورٹ پیش کریں، انہوں نے کہا کہ یہی صورتحال سکولوں کی بھی ہے دکھ کی بات ہے کہ سکولوں میں تین لاکھ بوگس بچوں کا اندراج کیا گیا اور 9سو سکول موجود ہی نہیں تاہم حکومت سے ان کی مد میں فنڈز حاصل کئے جا رہے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تھانوں اور سکولوں کی اس صورتحال کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائیگا، انہوں نے کہا کہ یہ امر بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ بلوچستان جیسے روایتی معاشرے میں بھی گھریلو تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ شب تھانوں کے دورے کے دوران گھریلو تشدد کی شکار ایک خاتون نے اپنی حالت زار سے انہیں آگاہ کیا جو انتہائی افسوسناک ہے اور جس کی اجازت کوئی بھی معاشرہ اور مذہب نہیں دیتا، انہوں نے میئر کوئٹہ کو ہدایت کی کہ وہ سٹی تھانے میں قائم خواتین سیل سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ حاصل کریں تاکہ گھریلو تشدد اور دیگر مسائل کی شکار خواتین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، اس موقع پر میئر کوئٹہ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ لاہور سے بلائی گئی ماہرین کی ٹیم نے کوئٹہ میں صفائی کی صورتحال کا سروے کر کے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں شہر کی صفائی کے لیے 3ہزار عملے کی تعیناتی اور سالانہ 120ارب روپے لاگت کا تخمینہ دیا گیا ہے، انہوں نے بتایا کہ کارپوریشن میں صفائی کے عملے کی تعداد 982ہے جن میں سے 200سے زائد مسلم سوئپر ہیں جو صفائی کا کام نہیں کرتے جبکہ 50سے زائد افراد مختلف افسران کی رہائش گاہوں میں کام کر رہے ہیں، اس طرح صرف 5سو اہلکار شہر کی صفائی کے لیے دستیاب ہیں جو انتہائی کم ہیں، وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر ہدایت کی کہ گھریلو صفائی پر تعینات عملے کو فوری طور پر واپس بلایا جائے، وزیر اعلیٰ نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ تمام ڈویژنل کمشنروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمینوں کی جانب سے طلب کئے جانے والے ڈویژنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بروقت انعقاد کو یقینی بنائیں تاکہ کونسلوں کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ممکن ہو سکے۔